ٹنڈو فضل، جہاں کبھی علم کا فضل برستا تھا
ٹنڈو فضل، جہاں کبھی علم کا فضل برستا تھا
بے وفا زندگی کی اس لازوال دھرتی پر سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ، علم کے جلتے دیپ کی روشنی کو زوال کے اندھیرے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، سچ کو فطرت ہمیشہ دوام بخشتی ہے اور علم سچ اور روشنی کا دوسرا نام ہے۔
کبھی اپنی مصروف زندگی میں سے کُچھ پل نکال کر ٹھہریے اور سُکون سے ماضی کی پگڈنڈیوں کو دیکھیں کہ ان راہوں میں سے کتنے سچ اور علم کے قافلے گُزرے، ہم ان قافلوں کی وجہ سے ہی ہیں اور ان کے دوام کی وجہ سے ہی تہذیب کے ہرے بھرے آنگنوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں جیتے ہیں، یہ چھاؤں بڑی تگ و دو کے بعد ملی ہے۔
دھوپ کافی تیز تھی اور روشنی آنکھوں میں چُندھیا رہی تھی۔ مگر شمال سے آتی ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے ماحول میں کچھ فرحت کا احساس موجود تھا۔ میں ایک ٹیلے پر بنی ہوئی مسجد کے آنگن میں کھڑا تھا۔ میرے سامنے ایک وسیع منظر تھا۔ کچھ مقبرے تھے پھر اپنی شناخت کھوتی گلیاں تھیں، پُرانے محلات، حویلیوں اور گھروں کی خستہ حال دیواریں تھیں۔
آنگن تھے مگر خستہ حال، ان میں نہ کوئی نیم کا درخت تھا اور نہ کوئی منڈیر کہ جس پر بیٹھ کر کوا مہمان کے آنے کی خبر دیتا۔ پھر ان سے آگے چٹیل میدان ہے اور اس سے آگے ایک وسیع مدرسہ نظر آتا ہے، جہاں کسی زمانے میں سینکڑوں طالبعلم تعلیم حاصل کرتے تھے، وہاں اب موسموں کی ٹھنڈی اور گرم ہوائیں چلتی ہیں اور ایک ٹھنڈی خاموشی بسیرا کرتی ہے۔