پاکستان میں گلیشئیرز ’بڑھنے‘ کی بات ٹھیک نہیں
پچھلے ہفتے برطانوی نشریاتی ادارے میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کے گلیشیرز بڑھ رہے ہیں جس کے باعث دریاؤں میں پانی کم ہوجائے گا۔
یہ خبر نہایت تشویش سے پڑھی گئی کہ پاکستان میں پانی کی کمی ہونے والی ہے۔ پاکستان جیسے زرعی اور موسمیاتی تغیر کے خطرات کے حوالے سے اولین نمبروں پر موجود ملک میں پانی کی کمی کا مطلب معاشی پسماندگی اور معاشرے میں مزید ابتری اور انتشارہے۔
اِس خبر نے نہ صرف اِس غلط فہمی کو جنم دیا کہ پاکستان کے تمام گلیشیرز بڑھ رہے ہیں بلکہ اِس حوالے سے خاصی سراسمیگی بھی پھیلی کہ دریاؤں میں پانی کی کمی ہوجائے گی، جبکہ عام افراد نے یہ بھی سوال کیے کہ جب گلیشیرز بڑھ رہے ہیں تو پانی میں بھی اضافہ ہونا چاہیے؟ پانی کم کیسے ہوجائے گا؟
اِس حوالے سے ہماری محکمہءِ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول صاحب سے تفصیلی بات چیت ہوئی جس کا لب لباب یہ ہے کہ یہ خبر مکمل طور پر درست نہیں ہے، بلکہ اِس خبر کے حوالے سے مزید وضاحت کی ضرورت تھی جو نہیں کی گئی۔
ہمارا ملک پاکستان تین عظیم بلند ترین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے سنگم کا حامل ہے۔ لہذا قطبین کے بعد سب سے زیادہ گلیشیرز ہمارے اِنہی سلسلوں میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے اِن پہاڑی سلسلوں میں موجود گلیشیرز کی کل تعداد 7,253 ہے۔
ماہرین متفق ہیں کہ اِن تینوں سلسلوں کے گلیشیرز گلوبل وارمنگ کے باعث تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ لیکن ایک حالیہ تحقیق کے مطابق قراقرم سلسلے میں موجود کچھ گلیشیرز بڑھ رہے ہیں یعنی کچھ گلیشیرز ایسے بھی دیکھے گئے جن کا بی ہیوئیر ایڈوانسنگ ہے۔ اِن کو ’قراقرم اناملی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی ہندو کش، ہمالیہ اور قراقرم کے دیگر گلیشیرز تو تیزی سے پگھل رہے ہیں لیکن سلسلہءِ قراقرم میں موجود کچھ گلیشیرز بڑھ رہے ہیں۔ اِن بے قاعدہ طرزِ عمل رکھنے والے گلیشیرز کی تعداد صرف 123 ہیں اور یہ گلیشیرز کی کل تعداد کا صرف 1 فیصد ہیں۔