پی پی پی کی خواتین ورکرز کارساز پر یادگارِ شہدا کے سامنے شمعیں روشن کر رہی ہیں — فوٹو / ڈان اخبار
تاہم گزشتہ 9 برس سے صوبے میں حکومت ہونے کے باوجود اب تک کوئی انکوائری ٹریبیونل قائم نہیں کیا جاسکا ہے۔
صوبے کے علاوہ پیپلز پارٹی کی 2008 سے 2013 تک وفاق میں بھی حکومت رہی تاہم اس دوران کارساز واقعے کے تعلق میں ایک بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی کسی کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔
مزید پڑھیں: کراچی: سانحہ کارساز کا اہم ملزم پولیس مقابلے میں ہلاک
قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ کارساز واقعے کے انکوائری ٹریبیونل نے بینظیر بھٹو کی ریلی کے دوران سیکیورٹی انتظامات میں کوتاہی کی نشاندہی کی جو کہ سیکیورٹی اداروں اور پیپلز پارٹی کے منتظمین کی جانب سے کی گئی، تاہم پیپلز پارٹی نے اس ٹریبیونل کو ہی تحلیل کردیا، کیونکہ پارٹی ریلی کی سیکیورٹی میں کوتاہی کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لینا چاہتی۔
پولیس کی جانب سے مارچ 2008 میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص قاری سیف اللہ کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تاہم عدم ثبوتوں کی بنا پر انہیں رہا کر دیا گیا۔
کارساز دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزام میں قاری اختر کو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کے سامنے پیش کیا گیا اور انہیں ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ بینظیر بھٹو نے اپنی آخری کتاب ’’مفاہمت: اسلام، جمہوریت اور مغرب‘‘ میں لکھا تھا کہ قاری اختر نے ان کے خلاف سازشیں کی تھیں اور بتایا تھا کہ قاری اختر ان افراد میں سے ایک ہے جو ان کی جان کے دشمن ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'ٹی ٹی پی نے بینظیر بھٹو پر ایک اور حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا'
تاہم ڈی ایس پی نواز رانجھا نے عدالت کو بتایا تھا کہ قاری اختر کے خلاف ان دھماکوں سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملے جس کے بعد عدالت نے انہیں بری کردیا، جبکہ اس کے کچھ عرصے بعد ڈی ایس پی نواز رانجھا ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
اس مبینہ دہشت گرد کی گرفتاری اور عدالت میں پیشی پیپلز پارٹی کی حکومت آنے سے قبل کی گئی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد ذمہ داران کو پکڑنے کے لیے مشکل ہی کوئی کوششیں کی گئیں ہوں۔
کارساز دھماکوں کی چوتھی برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے حیرت انگیز انکشاف کیا تھا کہ انہیں اُس وقت کے صدر پاکستان اور بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے اس واقعے کی مزید تحقیقات کرنے سے روک دیا تھا جس پر آصف علی زرداری نے موقف اختیار کیا تھا کہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات بینظیر قتل کیس کی تحقیقات کو متاثر کر سکتی ہیں۔
5 برس قبل اُس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے پولیس کے ڈی آئی جی کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے، تاہم سابق وزیراعلیٰ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی تحقیقات بھی بے نتیجہ نکلیں۔
مزید پڑھیں: بے نظیر قتل کیس: گتھی سلجھنے کے بجائے الجھتی چلی گئی
یاد رہے کہ گزشتہ برس 18 اکتوبر کو سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے محکمہ انسداد دہشت گردی کے چیف ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں کار ساز دھماکوں کی ازسرِ نو تحقیقات کے لیے 5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔
اس کیس میں پہلی ایف آئی آر بہادر آباد پولیس اسٹیشن میں حکومت کی مدعیت میں درج کرائی گئی تھی تاہم پیپلز پارٹی نے اس ایف آئی آر سے دستبردار ہو کر ایک دوسری ایف آئی آر دائر کی جس میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ مرحوم لیفٹننٹ جنرل (ر) حمید گل اور ریٹائرڈ بریگڈیئر اعجاز حسین شاہ کو ملزم نامزد کیا گیا۔
اس ایف آئی آر پر بھی تحقیقات کی گئیں لیکن تحقیقاتی اداروں کو اس میں بھی کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔
قاری سیف اللہ کے ساتھ ساتھ اس کیس کے پہلے تفتیشی افسر ڈی ایس پی رانجھا نے لشکر جھنگوی، جیش محمد، تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان سے مبینہ تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد سے تفتیش کی، تاہم پولیس ان کالعدم تنظیموں کے ملوث ہونے کے حوالے سے حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔
ڈی ایس پی رانجھا کے قتل کے بعد اس کیس میں ایس پی نیاز کھوسو دوسرے تفتیشی افسر مقرر ہوئے جنہوں نے ڈان کو بتایا کہ بینظیر بھٹو نے اس واقعے کے فوری بعد اُس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو خطوط لکھے جن میں پرویز الہٰی سمیت مزید دو افراد پر اس واقعے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تاہم ایوانِ صدر سے ان سوالات کا جواب موصول نہیں ہوا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے بینظیر بھٹو قتل کیس میں ملوث ملزمان سے کار ساز بم دھماکوں کے حوالے سے تفتیش کی تاہم اس حوالے سے مزید شواہد سامنے نہیں آسکے۔
تاہم 2014 میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اب یہ کیس سی ٹی ڈی کو منتقل کردیا گیا ہے، جو اب بھی زیر تفتیش ہے۔
یہ خبر 18 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی