ملکی امور میں فوجی مداخلت کو روکنے کیلئے معاہدے کی پیشکش
اسلام آباد: سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے تمام پارلیمانی جماعتوں کو مل کر ملکی سیاست میں فوجی مداخلت روکنے کے لیے معاہدے کی پیشکش کردی۔
سینیٹ اجلاس میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ایوان کا حصہ بننے والے ساجد میر کا کہنا تھا کہ 'آرمی چیف کا عہدہ ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک مضبوط ترین ستون بنتا جارہا ہے جبکہ آئین کے مطابق وزیراعظم کے پاس تمام اختیارات ہونے چاہیں لیکن حقیقت میں یہاں صورتحال مختلف ہے کیونکہ جن کے پاس پتھیار ہے وہی اصل حکمرانی کر رہے ہیں'۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ 'کبھی خفیہ ہاتھ کے نام سے جانے والے اب انہیں خفیہ رہنے کی پرواہ نہیں، اب وہ خود سامنے آتے ہیں یا پھر اپنی مرضی کے لوگوں کو سامنے لاتے ہیں'۔
مزید پڑھیں: سینیٹرز کی فوج،عدلیہ کی ملکی سیاست میں ’مداخلت‘ پر تنقید
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اب تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو فیصلہ کرتے ہوئے ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دینا ہوگا جہاں وہ منتخب حکومت کو ہٹانے کے لیے فوج کی طرف نہیں دیکھیں گے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'سیاسی جماعتوں کو سیاست کے دائرے میں رہ کر ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا چاہیے اور حکومت میں آنے کے لیے آسان راہیں نہیں ڈھونڈنی چاہیے'۔
انہوں نے تجویز دی کہ 'تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی محاذ پر مقابلہ کرنا چاہیے اور طاقت میں آنے کے لیے شارٹ کٹ سے گریز کرنا چاہیے‘۔
ساجد میر نے کہا کہ 'فوج ان تمام معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے جس میں اسکا کچھ لینا دینا نہیں، جن میں کشمیر، افغان اور معاشی پالیسیاں بھی شامل ہیں اور وہ خود کو تبدیل نہیں کریں گے بلکہ ہمیں خود ہی اپنے راستوں کو تبدیل کرنا ہوگا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ 'دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اور قدرتی آفات میں شہریوں کی مدد کرنے پر سب ہی نے فوج کو سراہا ہے لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب انہوں نے اپنی حدود پار کیں'۔
یہ بھی پڑھیں: 'مداخلت کی روک تھام کے لیے اداروں کو مضبوط بنایا جائے'
پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ 'فوج ہمیں مشورہ تو دے سکتی ہے لیکن اس مشورے کو اپنا حتمی فیصلہ نہیں بنا سکتی'۔
اجلاس کے دوران اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ 'جب تک سیاسی جماعتیں مضبوط نہیں ہوں گی یہ قبضہ جاری رہے گا'۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ اس وقت نظام کا دفاع کریں گے جب تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار جیسی ان کی بنیادی ضروریات پوری ہوں گی۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی سینیٹر نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ 'ہمیں شخصیات کے بجائے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'لاپتہ ہونے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ ایسا کرنے والوں کو لگتا ہے کہ وہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں'۔
اس موقع پر سینیٹر گیان چند نے الزام لگایا کہ 'اصل حکمرانی فوج ہی کے پاس ہے اور عدلیہ نے بھی ہمیشہ آمریت کا ساتھ دیا ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون سازوں کو ایسے قانون بنانے والوں کو سزا دینی چاہیے جنہوں نے پارلیمنٹ کے خلاف کسی بھی تحریک کا ساتھ دیا۔
مزید پڑھیں: مسلسل فوجی مداخلت
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر عطاءالرحمٰن نے کچھ سیاست دانوں اور قانون سازوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ اور جمہوریت خود مختار نہیں رہے، کچھ سیاست دانوں نے مخصوص طبقے کے حکم پر اپنی وفاداریاں بدلیں۔
علاوہ ازیں اجلاس کے دوران سینیٹرز نے وفاقی وزیر پانی و بجلی جاوید علی شاہ کے بیان پر احتجاج بھی کیا۔
خیال رہے کہ جاوید علی شاہ نے پانی کی قلت وجہ سے معیشت پر اثرات اور صحت کے مسائل پیدا ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جن افراد نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کی تھی وہ بھارتی ایجنٹ ہیں۔
یہ خبر 8 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی