اسلام آباد: ارکان سینیٹ نے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی ملکی سیاست میں مبینہ مداخلت پر تنقید کی۔

سینیٹ میں ریاستی اداروں کے اختیارات کے دائرہ کار سے متعلق بحث پر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’معاملات اداروں کے اختیارات میں عدم توازن سے زیادہ گھمبیر ہیں اور پارلیمنٹ، عدلیہ اور سویلین کے اختیارات اسلام آباد سے راولپنڈی منتقل ہو رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اختیارات جن لوگوں کے پاس منتقل ہو رہے ہیں وہ خود کو احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں، ایسے لوگوں کے پاس اختیارات کا منتقل ہونا انتہائی خطرناک ہے۔‘

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ’پارلیمان کے پاس ایک موقع آیا کہ سب کو احتساب کے دائرے میں لایا جائے، لیکن دکھ ہوا کہ ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے دائرے میں نہ لانے کا باضابطہ فیصلہ کرلیا گیا، جبکہ دکھ ہوا کہ میری پارٹی بھی سب کو احتساب کے دائرے میں لانے کے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی۔‘

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’دیکھنا ہوگا کہ جمہوریت کو کون کمزور کر رہا ہے، وسائل باہر چلے جائیں تو سیاسی جماعتیں منشور کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سینٹر سعود مجید نے کہا کہ ’ریاست کے تیسرے ستون نے سب سے زیادہ ملک پر ظلم کیا اور عدلیہ نے پارلیمنٹ کے اختیارات کو انکروچ کیا۔

سینیٹر جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ ’پارلیمنٹ کے اختیارات پر ہر دور میں قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی، ہمیں ہمیشہ عدلیہ اور ایگزیکٹو کے ناراض ہوجانے کا ڈر رہا، جبکہ ہم ایگزیکٹو کی ایک آواز پر قانون سازی کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’موجودہ وقت میں بھی قانون سازی ڈر کے باعث کی جا رہی ہے، ہم ایگزیکٹو اور عدلیہ کے سامنے جھکنے کے باعث کمزور رہے، ہم عدلیہ کی مداخلت کے بعد اپنا کام کرتے ہیں، عدلیہ کی جانب سے سوموٹو کے ذریعے دال اور چینی کی قیمتوں کا بھی تعین کیا گیا، عتیقہ اوڈھو کیسز جیسے معاملات کا بھی سوموٹو نوٹس لیا گیا، جبکہ ججز کی بحالی کے بعد عدلیہ نے ایگزیکٹو کے اختیارات بھی استعمال کیے۔‘

پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’سول ملٹری بیوروکریسی اپنی ذمہ داریاں صحیح نہیں نبھا سکتی، ان کی کوشش ہے کہ پارلیمان کے اختیارات کم کر کے اس کے مالک بن جائیں، سول ملٹری بیوروکریسی قانون اور پارلیمان پر حملہ آور ہوئے، عدلیہ کا ریکارڈ بلکل ٹھیک نہیں اور عدلیہ نے مارشل لاء حکومتوں کو درست قرار دے کر ان سے حلف لیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عدلیہ نے ہر مارشل لاء حکومت کا دفاع کیا اور ججز نے دہشت گردوں کی کارروائیوں کے ڈر سے بعض کیسز کے فیصلے سنانے سے بھی انکار کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فوجی اسٹیبلشمنٹ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے، عدلیہ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی عدالتیں بنا لی جاتی ہیں، فوجی ریٹائر ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں آکر کہتے ہیں پارلیمنٹ کی بالادستی ہونی چاہیے، جبکہ عملی طور پر طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے۔‘

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ’طاقت ہمیشہ کسی ایک ہی ادارے کے پاس رہی ہے، عدلیہ اور مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرریاں سینیٹ کے ذریعے ہونی چاہیے، ایسا فیصلہ کیا تو پارلیمنٹ کے اختیارات کا سب کو احساس ہوگا، جو قانون پارلیمنٹ بنائے عدلیہ اور ایگزیکٹو کو اس کے تابع ہونا چاہیے۔‘

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر طاہر مشہدی کا کا کہنا تھا کہ ’فوج، عدلیہ، پولیس سمیت تمام ادارے پارلیمنٹ کی پیداوار ہیں تاہم فوج کا ملک کی سیاست میں بڑا ہاتھ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں