مکلی کے خاموش ٹھنڈے قبرستان میں دور دور تک سنائی دیتی کہانیاں
مکلی کے خاموش ٹھنڈے قبرستان میں دور دور تک سنائی دیتی کہانیاں
کُچھ زمینوں کے بخت میں گورستان بننا لکھ دیا جاتا ہے اور کُچھ گورستانوں کے نصیبوں میں طویل عُمری اور داستانوں کو دفن کرنے کا دُکھ تحریر کردیا جاتا ہے۔ مَکلی اُن چند قبرستانوں میں سے ایک ہے جس کی اپنی الگ پہچان ہے اور یہ دوسرے قبرستانوں سے الگ اس لیے ہے کہ دُنیا میں ’ننگر ٹھٹہ‘ اور کہیں نہیں ہے، اس لیے ’مکلی‘ بھی کہیں اور نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔
مکلی پر تحقیق کے حوالے سے شاید میں اتنا قریب نہیں جاسکا، جتنا حسام الدین راشدی صاحب گئے تھے۔ میں شاید مکلی سے عشق کرنے کی وہ سرحد بھی پار نہ کرسکا جو راشدی صاحب یا دیگر محققین نے کی۔ مگر میں اُس فہرست میں ضرور شمار ہوں جس میں مکلی سے گہرا لگاؤ رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ جنہیں مکلی کی خاموشی دھیرے سے اپنے طرف بُلاتی ہے۔
تپتی دوپہروں میں، اُداس شاموں میں، ساون کی بارشوں میں، چاندنی کی نکھری راتوں میں اور جاڑوں کی اُن ٹھنڈی راتوں میں جب جنوب کی تیز ٹھنڈی ہوا، زقوم کی جھاڑی پر اٹکے ہوئے کپڑے کے ٹکڑے میں جان ڈال دے اور اُس کے پھڑکنے کی آواز مکلی کے خاموش ٹھنڈے قبرستان میں دُور دُور تک سُنائی دے، اور ٹھنڈی چاندنی رات اور الاؤ کی گرمی آپ کو تاریخ کی اُن گلیوں میں لے جائے جہاں ہزاروں منظرنامے ہیں، جو مکلی کے اِس وسیع قبرستان کی پتھریلی پگڈنڈیوں میں بکھرے پڑے ہیں۔
یہاں وقت کے حاکموں کے کمال اور زوال کی داستانیں ہیں۔ وقت کے وہ حاکم جو زبان سے جو کہتے وہ حُکم بن جاتا تھا، مگر وقت جو سب سے بڑا بادشاہ ہے، وہ اُن حاکموں کے منفی عوامل پر مُسکراتا اور خاموشی سے سب دیکھتا رہتا، دراصل جس کے پاس اختیار ہو، وہ ہی مُسکراتا ہے۔