مکلی کے خاموش ٹھنڈے قبرستان میں دور دور تک سنائی دیتی کہانیاں

مکلی کے خاموش ٹھنڈے قبرستان میں دور دور تک سنائی دیتی کہانیاں

ابوبکر شیخ

کُچھ زمینوں کے بخت میں گورستان بننا لکھ دیا جاتا ہے اور کُچھ گورستانوں کے نصیبوں میں طویل عُمری اور داستانوں کو دفن کرنے کا دُکھ تحریر کردیا جاتا ہے۔ مَکلی اُن چند قبرستانوں میں سے ایک ہے جس کی اپنی الگ پہچان ہے اور یہ دوسرے قبرستانوں سے الگ اس لیے ہے کہ دُنیا میں ’ننگر ٹھٹہ‘ اور کہیں نہیں ہے، اس لیے ’مکلی‘ بھی کہیں اور نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔

مکلی پر تحقیق کے حوالے سے شاید میں اتنا قریب نہیں جاسکا، جتنا حسام الدین راشدی صاحب گئے تھے۔ میں شاید مکلی سے عشق کرنے کی وہ سرحد بھی پار نہ کرسکا جو راشدی صاحب یا دیگر محققین نے کی۔ مگر میں اُس فہرست میں ضرور شمار ہوں جس میں مکلی سے گہرا لگاؤ رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ جنہیں مکلی کی خاموشی دھیرے سے اپنے طرف بُلاتی ہے۔

تپتی دوپہروں میں، اُداس شاموں میں، ساون کی بارشوں میں، چاندنی کی نکھری راتوں میں اور جاڑوں کی اُن ٹھنڈی راتوں میں جب جنوب کی تیز ٹھنڈی ہوا، زقوم کی جھاڑی پر اٹکے ہوئے کپڑے کے ٹکڑے میں جان ڈال دے اور اُس کے پھڑکنے کی آواز مکلی کے خاموش ٹھنڈے قبرستان میں دُور دُور تک سُنائی دے، اور ٹھنڈی چاندنی رات اور الاؤ کی گرمی آپ کو تاریخ کی اُن گلیوں میں لے جائے جہاں ہزاروں منظرنامے ہیں، جو مکلی کے اِس وسیع قبرستان کی پتھریلی پگڈنڈیوں میں بکھرے پڑے ہیں۔

یہاں وقت کے حاکموں کے کمال اور زوال کی داستانیں ہیں۔ وقت کے وہ حاکم جو زبان سے جو کہتے وہ حُکم بن جاتا تھا، مگر وقت جو سب سے بڑا بادشاہ ہے، وہ اُن حاکموں کے منفی عوامل پر مُسکراتا اور خاموشی سے سب دیکھتا رہتا، دراصل جس کے پاس اختیار ہو، وہ ہی مُسکراتا ہے۔

قدیم مکلی قبرستان—تصویر ابوبکر شیخ
قدیم مکلی قبرستان—تصویر ابوبکر شیخ

مرزا طغرل بیگ کی آخری آرام گاہ—تصویر ابوبکر شیخ
مرزا طغرل بیگ کی آخری آرام گاہ—تصویر ابوبکر شیخ

مکلی کے آثار اور قدیم بہاؤ—تصویر ابوبکر شیخ
مکلی کے آثار اور قدیم بہاؤ—تصویر ابوبکر شیخ

ہم جب تاریخ کے اوراق کا باریکی سے مطالعہ کرتے ہیں، تب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وقت سے بڑا کوئی مُنصف نہیں۔ تاریخ کے صفحات ہمیں اُن بادشاہوں کی کہانیاں بھی سُناتے ہیں جو اپنے لیے شاندار مقبرے اور قبریں بنواتے کہ مرنے کے بعد وہ اُن میں طمطراق سے دفن ہوسکیں۔ وہ دفن تو ہوئے مگر طمطراق سے نہیں۔ کُچھ نے منفی عوامل اتنے زیادہ کیے اور نفرت کے اتنے بیج بوئے کہ اپنے بوئے ہوئے کانٹے دار جھاڑیوں کے جنگل میں جی تک نہ سکے اور اپنے آپ کو چِیر پھاڑ ڈالا۔

کچھ کو تو لوگوں نے اُن کے اپنے درباروں میں ہی مار ڈالا۔ چند کو اُن کے اَپنوں نے اِس لیے وقت سے پہلے مار ڈالا کہ اُن کو یہ ڈر تھا کہ اگر یہ نہ مرا تو ہمیں مار ڈالے گا۔ کُچھ جنگوں کے میدانوں میں شہید ہوگئے اور کچھ بے گناہ معصوم لوگوں سے صرف اِس لیے زندگی کا حق چھین لیا گیا کہ بادشاہ سلامت کا کہنا نہیں مانا اِس لیے ’ناپسنددیدہ‘ ٹھہرے اور زنداں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگئے یا پھر ماردیے گئے۔

20 میل کے پہاڑی سلسلے میں پھیلا مکلی کا یہ پُراِسرار قبرستان ’ساموئی‘ سے شروع ہوتا ہے اور ’پیر پٹھو‘ پر ختم ہوتا ہے۔ جس میں 7 صدیوں کے راز دفن ہیں۔ نہ جانے کتنی لوک داستانوں کا شور ہے جو اِس شہرِ خموشاں میں دفن ہے۔

260 برس پہلے ’سید میر علی شیر قانع‘ نے اِس مکلی کو جس کیفیت میں دیکھا تھا اُس پر ایک چھوٹی سی کتاب تحریر کر ڈالی۔ یہ کتاب تقریباً 1761ء میں تحریر کی گئی تھی، جس پر بعد میں ’سید حسام الدین راشدی‘ نے بڑا تحقیقی کام کیا اور 900 صفحات پر مشتمل ’مکلی نامہ‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب ہم تک پہنچی۔

’قانع‘ صاحب کی تحریر سے ہم ڈھائی سو برس پہلے کے مکلی اور قرب و جَوار کی کیفیت کو اچھی طرح جان سکتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ،

’مکلی کے مزاروں پر لوگوں کی کافی آمد و رفت رہتی ہے۔ بُزرگوں کے مزاروں پر سالانہ اور کئی دیگر کے مَزاروں پر ہر ماہ کے پہلے پیر کو میلہ لگتا ہے۔ مرد و خواتین اُن میلوں پر نئے رنگ برنگی کپڑے پہن کر آتے اور اِن مزاروں پر کئی دن کا قیام کرتے اور میلے سجے رہتے۔ چاندنی راتوں، جنُوب کی ٹھنڈی راحت دینے والی ہواؤں اور بارش کے دنوں میں نَنگر ٹھٹہ کے لوگ شہر سے آکر یہاں موسیقی اور گیت موسیقی کی محفلیں سجاتے جن میں فنکار بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ٹھٹہ اور مَکلی کے بیچ جو مشرق میں نشیبی زمین ہے، وہاں اکثر پانی ہوتا اِس لیے مرد اور عورتیں کشیوں میں بیٹھ کر سیر و تفریح کرتے تھے۔‘

مَکلی قبرستان کی ایک درگاہ پر لگا میلہ —تصویر ابوبکر شیخ
مَکلی قبرستان کی ایک درگاہ پر لگا میلہ —تصویر ابوبکر شیخ

مَکلی قبرستان میں موجود درگاہوں پر برسوں سے میلے سجتے آ رہے ہیں —تصویر ابوبکر شیخ
مَکلی قبرستان میں موجود درگاہوں پر برسوں سے میلے سجتے آ رہے ہیں —تصویر ابوبکر شیخ

مَکلی کے آثار اور قدیم بہاؤ —تصویر ابوبکر شیخ
مَکلی کے آثار اور قدیم بہاؤ —تصویر ابوبکر شیخ

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مَکلی میں پانی کے تالاب اور بہت سارے میٹھے پانی کے چشمے تھے۔ پانی کی وجہ سے تپتے دنوں میں بھی یہاں ہریالی رہتی اور یہ میٹھے چَشمے پیاسے لوگوں، چَرِند و پَرند کی پیاس بُجھاتے اور ساتھ میں پانی کے کئی تالاب بھی تھے، درخت تھے اور کُچھ دکانیں بھی تھیں جن میں درگاہوں کے میلوں کی مناسبت سے چیزیں فروخت ہوتیں۔ یہ تصویر 260 برس پہلے کی ہے لیکن جیسے ٹھٹہ جیسا بڑا شہر اپنے عروج کے دن کھونے لگا تو یہ اثرات یقیناً مکلی پر بھی پڑے۔

140 برس پہلے رچرڈ ایف برٹن جب حیدرآباد جا رہے تھے تب اُنہوں نے مکلی کا انتہائی باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ یہاں تک کہ مکلی کے اطراف جنگلی حیات کی کیا کیفیت تھی اُس کے متعلق بھی وہ مشاہداتی نوٹ تحریر کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ،

’مکلی کے اطراف پھیلے ہوئے جنگل سے گزرتے ہوئے ہمیں ’کالے تیتر‘ کی آواز سُننے میں آئی جو شاید پہاڑی کے درمیان موجود میدانی علاقے سے آرہی تھی۔ ’ہُدہُد‘ بھی ہمارے آگے بغیر کسی خوف کے گزر رہا تھا، ’چنڈول‘ بھی ہم سے نہیں ڈر رہا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر بیٹھا رہتا اور جب ہم نزدیک پہنچتے تو اُڑ کر پھر کُچھ فاصلے پر جا کر سامنے بیٹھ جاتا، ہمیں چلتا دیکھ کر کچھ کوے ہمارا جائزہ لے کر ’کائیں کائیں‘ کر رہے تھے، کچھ تیتر ہمارے دونوں اطرف چلتے تھے۔ ’خرگوش‘ جیسا ڈرپوک جانور بھی ہمیں دیکھ کر نہیں بھاگ رہا تھا، یہ خرگوش اچھے خاصے صحت مند تھے اور جنگلی بلے سے بھی بڑے تھے۔ کچھ گیدڑ شاید ساری رات اِن کا پیچھا کررہے تھے کہ اُن کا شکار کرسکیں مگر ہمیں دیکھ کر وہ وہیں پر کھڑے ہوگئے اور چالاک نظروں سے ہمیں دیکھتے رہے۔ مکلی کا دُور سے نظارہ آدمی کو بے حد راحت اور خوشی بخشتا ہے، آپ کسی اونچی پہاڑی پر چڑھ کر دیکھیں تو، نَنگر (ٹھٹہ) کا شہر یہاں سے سیدھا مشرق میں بسا نظر آتا ہے۔ مکلی کے مقبروں کی تعمیرات پر کی گئی نقش و نگاری کو جتنا قریب سے جاکر دیکھیں گے اُتنا ہی زیادہ لطیف احساس ملتا ہے۔ یہاں ہر قسم کی نقش نگاری میں انتہائی نزاکت اور نفاست نظر آتی ہے جو سارے مقبرے پر اُبھری ہوتی ہے۔ یہاں کے ہر پتھر پر، چھینی سے تراشیدہ (Carved relief) دکھائی دیتا ہے۔ دیکھنے والے کی آنکھ کو یقین ہی نہیں آتا کہ اِس ساری نقش و نگاری نے ان بے جان پتھروں میں جان ڈال دی ہے۔‘

برٹن اُن چشموں کا کوئی ذکر نہیں کرتے جس کا ذکر ’قانع‘ صاحب نے کیا تھا۔ البتہ کچھ درختوں کا ذکر ضرور کیا ہے جو پانی کی کمی کی وجہ سے اپنا سبزہ کھو چُکے تھے اور ساتھ میں اُن کئی بھکاریوں کا بھی جو اُنہیں مکلی پر ملے تھے۔

برٹن کی آمد کے 165 برس بعد جب میں مَکلی گیا تو مَکلی پر مُجھے بھی کوئی چشمہ نظر نہیں آیا اور نہ کوئی تالاب ملا۔ میں اُس ’ماہ بیگم‘ کی قبر کو ڈھونڈنے میں بھی ناکام رہا جنہوں نے قندھار کے قدیم سرد شہر میں آنکھ تو کھولی تھی مگر اُن کے نصیب قندھار شہر سے کُچھ الگ نہیں تھے۔ ’بابر‘ نے 913ء میں قندھار پر حملہ کیا اور کامیاب ہوا۔ اِس کامیابی کو دیکھ کر ’مرزا شاہ بیگ‘ اور اُن کے بھائی ’محمد مقیم‘ شکست کھا کر بھاگ گئے۔ بابر نے قندھار اپنے بھائی ’سلطان ناصرالدین‘ کے حوالے کیا اور کابل لوٹنے پر محمد مقیم کی بیٹی ’ماہ بیگم‘ کو قید کرکے اپنے ساتھ لے گیا۔ کچھ عرصے بعد محمد مقیم وفات کرگئے تو اُدھر بابر نے شرعی قانون کے مطابق ’ماہ بیگم‘ کا نکاح ’محمد قاسم کوکو‘ کے ساتھ کیا، جن سے ایک بیٹی ’ناہید بیگم‘ پیدا ہوئیں، لیکن بعد میں قاسم کوکو، ازبکوں سے جنگ میں مارا گیا۔

امیر سلطان بیگ کا مقبرہ —تصویر ابوبکر شیخ
امیر سلطان بیگ کا مقبرہ —تصویر ابوبکر شیخ

مرزا جانی کا مقبرہ —تصویر ابوبکر شیخ
مرزا جانی کا مقبرہ —تصویر ابوبکر شیخ

دیوان شرفا خان کا مقبرہ —تصویر ابوبکر شیخ
دیوان شرفا خان کا مقبرہ —تصویر ابوبکر شیخ

کچھ عرصے بعد شاہ بیگ ارغون ڈرامائی انداز سے ماہ بیگم کو محل سے چوری چھُپے نکال لائے اور اپنے بیٹے ’مرزا شاہ حسن‘ سے شادی کروا دی۔ اتفاق یہ بھی ہوا کہ وہ ناہید بیگم کو نکال نہ پائے اِس لیے وہ بابر کے ہاں ہی رہی۔ وقت کے ساتھ حالات بھی بدلے، مرزا شاہ حسن ٹھٹہ کا حاکم بنا اور کمال سے زوال کا ذائقہ چکھا تب 1554ء میں ’مرزا عیسیٰ ترخان‘ تخت پر بیٹھا اور ماہ بیگم سے نکاح کیا اور ایک بڑا عرصہ ایک ساتھ گزارا۔ جب مرزا عیسیٰ نے دنیا کو خیرباد کہا تو اُن کے بڑے بیٹے ’مرزا باقی بیگ‘ تخت پر بیٹھے، مگر انہوں نے عام لوگوں سے تو دور، اپنوں سے بھی مثبت رویہ روا نہیں رکھا۔ جس کے باعث اُن کے اپنے خاندان میں بغاوت پھوٹ پڑی۔

یہ وہ ماہ بیگم ہی تھیں جنہوں نے مرزا باقی بیگ کو حکومت دینے کے لیے اپنے مرحوم میاں مرزا عیسیٰ کو اُن کی سفارش کی تھی۔ آخر مرزا جان بابا اور یادگار مسکین کے کہنے پر، ماہ بیگم نے بغاوت کا پرچم بلند کیا اور ہاتھی پر سوار ہوکر اپنے سوتیلے بیٹے کے خلاف جنگ لڑی، مگر کامیاب نہ ہوسکیں۔

مرزا جان بابا کی آخری آرام گاہ —تصویر ابوبکر شیخ
مرزا جان بابا کی آخری آرام گاہ —تصویر ابوبکر شیخ

مرزا جان بابا کا مقبرہ —تصویر ابوبکر شیخ
مرزا جان بابا کا مقبرہ —تصویر ابوبکر شیخ

مرزا باقی بیگ کی آخری آرام گاہ —تصویر ابوبکر شیخ
مرزا باقی بیگ کی آخری آرام گاہ —تصویر ابوبکر شیخ

مرزا باقی بیگ کی آخری آرام گاہ —تصویر ابوبکر شیخ
مرزا باقی بیگ کی آخری آرام گاہ —تصویر ابوبکر شیخ

یہ وہ دن تھے جب قاسم کوکو سے جنمی ناہید بیگم بھی ٹھٹہ میں تھیں۔ بغاوت کرنے پر ماہ بیگم کو قید کرلیا گیا اور قید خانے میں اُس کا دانہ پانی بند کردیا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مضبوط حواسوں والی اِس خوبصُورت عورت کے آخری پل بھوک، پیاس اور بے کسی کی کیفیت میں اِسی قید خانے میں گزرے۔ ایک مردانہ سماج کی یہ ہی بدبختی ہے کہ وہ کرداروں کے ساتھ انصاف نہیں کرتی۔ مرد چاہے منفی کردار کا مالک ہو، زندگی بھر منفی کام کیے ہوں، مگر اُس کے مرنے کے بعد بھی مقبرہ بنے گا مگر عورت چاہے کتنے بھی مثبت کام کرے مگر مرنے کے بعد وہ قبرستان میں بھی کہیں کسی کونے میں بے نام و نشان قبر میں آنکھیں موندے پڑی ہوگی۔ آخر عورت جو ٹھہری۔

اب مختصر سا ذکر اُس مرزا باقی بیگ کا جنہوں نے زندگی میں شاید ہی کوئی اچھا کام کیا ہو مگر اُن کی آخری آرام گاہ انتہائی عمدہ اور شاندار ہے۔ وہ مرزا عیسیٰ اول کے بڑے بیٹے تھے۔ اُن کے دو اور بھائی تھے، ایک مرزا صالح جو ’مُرید بلوچ‘ کے ہاتھوں قتل ہوئے، دوسرا ’جان بابا‘، جنہیں مرزا باقی نے، ماہ بیگم کی بغاوت میں ساتھ دینے پر دھوکے سے قتل کروایا۔

اِسی بغاوت کی جنگ میں مرزا باقی کی بیوی ’رائحہ بیگم‘ بھی قتل ہوگئیں جوکہ ماہ بیگم کی بیٹی ناہید بیگم کی بیٹی تھیں۔ اتفاق دیکھیے کہ رائحہ بیگم کا مرزا باقی سے دوسرا نکاح تھا جبکہ پہلا نکاح ’مرزا نجابت خان‘ سے ہوا تھا۔ مرزا باقی نے اتنے بے گناہ لوگوں کو قتل کروایا تھا کہ اُن کے دل و دماغ نے خُود اُن سے بغاوت کردی اور وہ پاگل ہوگئے۔

1586ء میں مرزا نے آدھی رات کو اپنی تلوار سے اپنے پیٹ کو کاٹ ڈالا اور تڑپتے ہوئے جسم کو سانس کی ڈوری سے آزاد کردیا۔ مرزا باقی کے متعلق اُن کی وحشت کی کئی کہانیاں ہیں، جس کا تذکرہ پھر کبھی۔ (اب مُجھے نہیں پتہ کہ محکمہ آثارِ قدیمہ نے جو بورڈ اُن کے مقبرے کے مرکزی دروازے پر لگادیا ہے اُس پر وفات کا سن 1640ء کیوں لکھ دیا ہے جبکہ سب کو پتہ ہے کہ مرزا باقی نے یہ جہان 1586ء میں چھوڑا تھا۔ اب اتنی بڑی غلطی کی گنجائش تو ہونی نہیں چاہیے، مگر ہے تو کیا کیا جاسکتا ہے!)

مرزا باقی کے مقبرے کے باہر نصب بورڈ جس پر وفات کی تاریخ غلط لکھی ہے—تصویر ابوبکر شیخ
مرزا باقی کے مقبرے کے باہر نصب بورڈ جس پر وفات کی تاریخ غلط لکھی ہے—تصویر ابوبکر شیخ

مَکلی میں ارغُونوں اور ترخانوں کا ایک وسیع قبرستان ہے، اُن قبروں میں طبعی موت سے مرنے والے بہت ہی کم ہوں گے۔ دراصل ارغون، ترخان اور مغل ایک حاکم طبقہ رہا ہے اور اِس طبقے میں اکثر زندگی کے شب و روز تخت و تاج کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ لہٰذا یہاں موت وقت سے پہلے ہی آجاتی ہے اور پوری وحشت کے ساتھ آتی ہے۔ اِن قبروں اور مزاروں میں جو اجسام دفن ہیں اُن کی موت کے متعلق اگر تاریخ کے صفحات سے رجوع کیا جائے تو اِن کے حالات کا مطالعہ کرتے وقت ایک قسم کی وحشت کا بخوبی احساس ہوتا ہے۔ یہ لوگ یا تو جنگ کے میدان میں مارے گئے یا پھر رات کی تاریکی میں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔

یہاں اُس عیسیٰ خان ترخان (ثانی) کی بھی آخری آرام گاہ ہے جو مرزا عیسیٰ اول کے پوتے یعنی ’مرزا جان بابا‘ کے بیٹے تھے۔ مرزا باقی نے اپنے بھتیجے کو بھی برداشت نہیں کیا اِس لیے وہ پہلے اپنی ماں کے والدین ’سمیجوں‘ کے پاس رہا، جس کے بعد جہانگیر کی حکومت میں امیر بنا۔ گجرات میں اُنہیں جاگیر بھی عطا کی گئی۔ یہاں تک کہ گجرات اور سُورت کی گورنری کی خدمات بھی انجام دیں، مگر اِس دوران وہ ٹھٹہ کی طرف مسلسل آتے رہے اور 1650ء میں جب وفات ہوئی تو اپنی نگرانی میں بنائی ہوئی شاندار آخری آرام گاہ میں دفن ہوئے۔

مرزا عیسیٰ خان ثانی کی اخری آرام گاہ —تصویر ابوبکر شیخ
مرزا عیسیٰ خان ثانی کی اخری آرام گاہ —تصویر ابوبکر شیخ

مقبرہ مرزا عیسیٰ خان ثانی —تصویر ابوبکر شیخ
مقبرہ مرزا عیسیٰ خان ثانی —تصویر ابوبکر شیخ

مرزا عیسیٰ خان ثانی کی اخری آرام گاہ کا اندرونی منظر —تصویر ابوبکر شیخ
مرزا عیسیٰ خان ثانی کی اخری آرام گاہ کا اندرونی منظر —تصویر ابوبکر شیخ

مَکلی کو اگر تاریخی تسلسل کے ساتھ سمجھنا ہو تو اِسے دیکھنے کے لیے بالکل شمال، جہاں کسی وقت میں سَمہ سرداروں کا تخت گاہ ’ساموئی‘ ہوا کرتا تھا، وہاں سے سفر کی شروعات کرنی چاہیے۔ دریائے سندھ کا ایک قدیم بہاؤ بھی وہاں سے جنوب کی طرف چلتا تھا اور بالکل مَکلی کی پہاڑی کے ساتھ ساتھ مشرق میں بہتا تھا۔

اِس بہاؤ کے متعلق میں نے جب محترم محمد علی مانجھی سے پُوچھا تو جواب آیا،

’جی بالکل یہ دریائے سندھ کے دیگر بہاوؤں کی طرح ایک قدیم بہاؤ تھا۔ مگر جس وقت ہم جنوبی سندھ (زیریں سندھ) میں دریائے سندھ کے قدیم بہاوؤں کا ذکر کریں تو یہ ذہن میں ضرور ہونا چاہیے کہ قدیم دریائے سندھ کی گزر گاہوں پر اتنا تحقیقی کام نہیں ہوا ہے، لہٰذا غلطی کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے۔‘

یہ بہاؤ دھیرے دھیرے پانی کے کم ہونے کی وجہ سے اپنا وجود کھوتا گیا اور تالپُروں کے دور تک یہ کسی نہ کسی کیفیت میں جاری رہا لیکن اِس کے بعد اِس کے دن پورے ہوئے۔ مَکلی کی پہاڑی سے اب بھی اِس قدیم بہاؤ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ویران، سُوکھا ہوا اور اُداس۔

’سمہ دور‘ (1351ء سے 1515ء) میں ہمیں اِس قدیم بہاؤ کے متعلق بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔ سندھ میں سومرا قبیلے کے بعد سمہ خاندان کی حکومت کی ابتداء ہوئی۔ 1351ء میں جام اُنڑ سموں نامی وہ پہلا حاکم تھا، جنہوں نے سمہ دور کی بنیاد رکھی تھی۔ 17 کے قریب حاکموں نے 1519ء تک تقریباً 170 برس تک حکمرانی کی۔ اِن 17 حاکموں میں سب سے زیادہ مشہور اور نیک دل حاکم ’جام نندو‘ تھا۔

مقبرہ جام نندو —تصویر ابوبکر شیخ
مقبرہ جام نندو —تصویر ابوبکر شیخ

جام نندو کے مقبرے پر نظر آنے والی خوبصورت سنگ تراشی —تصویر ابوبکر شیخ
جام نندو کے مقبرے پر نظر آنے والی خوبصورت سنگ تراشی —تصویر ابوبکر شیخ

مقبرہ جام نندو —تصویر ابوبکر شیخ
مقبرہ جام نندو —تصویر ابوبکر شیخ

1461ء کے جاڑوں میں اتوار کے دن 29 دسمبر کو جام نظام الدین کو سندھ کے تخت پر بٹھایا گیا۔ 1495ء میں سندھ کے اِس سلطان نے ٹھٹہ کو نئے سرے سے تعمیر کروایا اور یہ شہر تہذیب و تَمدن کا بین الاقوامی مَرکز بنا۔ جب امن، راحت، فراغت و خوشحالی کی خبریں دُور دَراز علاقوں اور ملکوں تک پہنچیں تو عالموں اور علم کے پیاسوں نے یہاں کا رُخ کیا۔ آخر 1508ء کے سرد دنوں میں سندھ کے اِس سلطان نے آنکھیں موُند لیں۔ یہ آنکھیں کیا بند ہوئیں جیسے شفقت کی چھاؤں سندھ سے روٹھ گئی۔

جام نندو کے بعد اگر ’دریاء خان‘ کا ذکر نہ ہو تو سمہ دور کی کہانی ادھوری رہے گی۔ ایک چرواہے سے وزیر تک پہنچنے کی بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ اِس ساری کہانی میں مرکزی کردار دو جوہروں کا تھا، ایک یہ کہ وہ بہادر تھا اور دوسرا وہ صاف دل تھا۔ ’تاریخ معصومی‘ کے مصنف، میر معصوم بکھری اِس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ

’دریا خان نے اپنی ذہانت اور تدبر سے ملتان سے کیچ مکران اور کَچھ تک کا علاقہ سندھ کی حکومت میں شامل کرلیا۔ یہ سندھ کے لیے ایک اچھا زمانہ تھا۔‘

مگر وقت نے کروٹ لی اور گھر کو آگ لگ گئی وہ بھی گھر کے چراغوں سے۔

دریا خان کے مقبرے کی چار دیواری —تصویر ابوبکر شیخ
دریا خان کے مقبرے کی چار دیواری —تصویر ابوبکر شیخ

دریا خان کی آخری آرام گاہ —تصویر ابوبکر شیخ
دریا خان کی آخری آرام گاہ —تصویر ابوبکر شیخ

دریا خان کی آخری آرام گاہ پر بنی محراب —تصویر ابوبکر شیخ
دریا خان کی آخری آرام گاہ پر بنی محراب —تصویر ابوبکر شیخ

ارغونوں کو ٹھٹہ پر حملہ کرنے کی دعوت جام نندو کے گھر سے دی گئی۔ جب ذاتی مفادات کی شیرینی دل، دماغ اور جسم میں خون کی طرح گُھل جائے تو پھر انسانیت کے کسی ذائقے کی پَرکھ نہیں رہتی۔ مگر اپنی مٹی اور گلیوں کے لیے دولہا دریاء خان ارغونوں سے لڑا۔ 22 دسمبر 1520ء کو بُدھ کا دن تھا، جاڑا اپنے عروج پر تھا اور ساموئی (مکلی سے شمال کی طرف) میں جنگ کا میدان تیار تھا۔ ارغون اور دریا خان کے لشکروں میں جنگ ہوئی اور ارغونوں کو فتح حاصل ہوئی۔

دریا خان کے قتل کے متعلق متضاد حوالے ہیں۔ کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ، شام کے وقت میدان جنگ میں، دریا خان ایک تنگر بردی قبتاش نام کے ارغون کے ہاتھوں قتل ہوا۔ جبکہ میر محمد پورانی اپنی کتاب ’نصرت نامہ ترخان‘ (1560) میں لکھتے ہیں کہ،

’ٹھٹھہ کی فتح کے بعد شاہ بیگ ارغون نے قیدی سپہ سالار دریا خان کو اپنی تلوار سے خود قتل کیا۔‘

کچھ بھی ہوا ہو، مگر دونوں صورتوں میں ایک بہادر اور دھرتی سے سچّے انسان کا اِس دنیا سے بے وقت چلے جانا ہی نتیجہ ٹھہرا۔ دریا خان نے آنکھیں موندیں تو جام فیروز، شاہ بیگ ارغون کے سامنے پیش ہوا اور سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ سیہون سے جنوب کی طرف کا حصہ جام فیروز کو دیا گیا اور سندھ کے شمالی حصے پر ارغونوں کا قبضہ ہوا۔

مَکلی کے شب و روز، یہاں کے موسم، یہاں قبروں میں دفن ہزاروں دُکھوں اور افسانوں کو اگر میں تحریر کے دائرے میں لانے کی کوشش کروں تو ایک زمانہ چاہیے اِن کیفیات کو آپ تک پہنچانے میں۔ اِس لیے مکلی کے اِس مُختصر ذکر کے ساتھ جاڑوں کی اِس ٹھنڈی شام میں آپ سے اجازت لیتے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ یہاں جو کرداروں کے ساتھ تاریخ کے حوالے جُڑے ہوئے ہیں، وہ آپ کو وقت بہ وقت سناتے رہیں۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔