سندھ کی قدیم درگاہ اور سکندراعظم کا جزیرہ
سندھ کی قدیم درگاہ اور سکندراعظم کا جزیرہ
آپ کبھی کراچی سے ٹھٹھہ کی طرف گئے ہوں اور اس سفر میں آپ بیچ میں کہیں نہیں رُکے تو یہ یقیناً کوئی حیران کر دینے والی بات نہیں ہے، کیونکہ اگر آپ کو کسی اشتہاری بورڈ کے ذریعہ کُچھ بتایا جاتا تو آپ ضرور وہاں جانے سے متعلق سوچتے اور شاید چلے بھی جاتے۔
مگر کیا کریں کہ محکمہ آثارِ قدیمہ اور محکمہ ثقافت و سیاحت کی شان سے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام بالاتر ہیں۔ آخر وہ لوگوں کو ان اہم تاریخی مقامات کے متعلق بتائیں بھی تو کیوں؟ کیونکہ یہ ادارے سمجھتے ہیں کہ وہ ہی عالم کُل ہیں اور یہ سارے تاریخی اور اہم مقامات ان کے لیے ہی ہیں۔ عام مخلوق، ان کو جان کر کیا کرے گی؟ لہٰذا ہم یہ اختیار ان کے پاس ہی رہنے دیتے ہیں اور خود سے ان تاریخی جگہوں کی سیر کی کوشش کرتے ہیں۔
گھارو سے آگے ’گُجو‘ کا ایک چھوٹا سا شہر آتا ہے جس کی وسعت مرکزی شاہراہ کے دونوں اطراف میں آدھے کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ شہر کے مغرب میں کینجھر سے میٹھے پانی کی نہریں نکلتی ہیں جو کراچی کے لیے پانی لے جاتی ہیں۔
آپ مغرب سے آ رہے ہیں تو ان نہروں کی پُل کو کراس کرکے، نہروں کے جنوب میں پکّے راستے پر جو مغرب کی طرف جا رہا ہے اُس پر چلے جائیں تو دو ڈھائی کلومیٹر چلنے کے بعد راستہ جنوب کی طرف مُڑ جاتا ہے اور سامنے ایک مختصر سے ٹیلے پر ’ابُو تُراب‘ کی درگاہ ہے جو پیلو کے درختوں کی چھاؤں میں گھری ہوئی ہے۔ زائرین اور معتقدین ہیں جو ان درختوں، درگاہ اور وہاں بنی ہوئی کوٹھڑیوں کی ٹھنڈی چھاؤں اور سُکون کی غنودگی میں زندگی کے اچھے پَلوں میں جئے جاتے ہیں کہ باہر اپریل کی تیز دھوپ پھیلی ہوئی ہے۔
اس پھیلی دھوپ میں درگاہ کے چاروں اطراف میں پھیلا وہ قدیم قبرستان بھی ہے جو اپنی قدامت کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ چوکنڈی طرز کا ایک بہت بڑا قدیمی قبرستان ہے جہاں 200 سے زائد قدیم قبریں ہیں جن پر سنگ تراشی کا نہایت ہی نازک، عمدہ اور پیچیدہ کام کیا ہوا ہے، اور کچھ اس طرز کی قبریں بھی ہیں جو چوکنڈی جیسے اور قبرستانوں میں بھی نہیں ہیں۔