پاکستان

نہال ہاشمی کی ناہلی کے بعد سینیٹ کی خالی نشست پر ضمنی انتخاب 1 مارچ کو ہوگا

ای سی پی کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی صوبے سے سینیٹ کی خالی نشست پر سینیٹر کا انتخاب کرے گی۔
|

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کی نا اہلی کے بعد ان کی سینیٹ کی سیٹ پر ضمنی انتخاب یکم مارچ کو ہو گا۔

خیال رہے کہ نہال ہاشمی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 2015 میں سینیٹ کی جنرل سیٹ پر منتخب ہو کر آئے تھے تاہم انہیں گزشتہ ہفتے توہین عدالت کیس میں عدالت نے مجرم قرار دیتے ہوئے نا اہل قرار دیا تھا۔

ای سی پی کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی صوبے سے سینیٹ کی خالی نشست پر سینیٹر کا انتخاب کرے گی۔

ضمنی انتخاب کے لیے کاغزات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 13 فروری ہے جبکہ کاغزات نامزدگی کی جانچ پڑتال 15 فروری کو کی جائے گی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے کاغزات نامزدگی کی منظوری اور مسترد کیے جانے کے خلاف اپیل جمع کرانے کی آخری تاریخ 17 فروری رکھی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نہال ہاشمی کی سینیٹ نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری

اپیلوں پر فیصلہ 19 فروری کو سنایا جائے گا اور 20 فروری کو امیدواروں کی نظر ثانی کی گئی فہرست شائع کی جائے گی۔

21 فروری کو امیدواروں کی جانب سے کاغزات نامزدگی واپس لیے جانے کی آخری تاریخ رکھی گئی ہے جبکہ ضمنی انتخاب یکم مارچ 2018 کو ہوں گے۔

ضمنی انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل لاہور میں واقع پنجاب اسمبلی کی عمارت میں کی جائے گی۔

نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر

یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے اپنی جذباتی تقریر میں دھمکی دی تھی کہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی۔

ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے نہال ہاشمی نے جوش خطابت میں کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ حساب لینے والے کل ریٹائر ہوجائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنادیں گے۔

مزید پڑھیں: نہال ہاشمی تقریر کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل

ویڈیو میں نہال ہاشمی کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے،'اور سن لو جو حساب ہم سے لے رہے ہو، وہ تو نواز شریف کا بیٹا ہے، ہم نواز شریف کے کارکن ہیں، حساب لینے والوں! ہم تمھارا یوم حساب بنا دیں گے'۔

ان کا مزید کہنا تھا، 'جنھوں نے بھی حساب لیا ہے اور جو لے رہے ہیں، کان کھول کے سن لو! ہم نے چھوڑنا نہیں تم کو، آج حاضر سروس ہو، کل ریٹائر ہو جاؤ گے، ہم تمھارے بچوں کے لیے، تمھارے خاندان کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کردیں گے'۔

لیگی سینیٹر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب ایک روز قبل وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے دوبارہ پیش ہوئے، جہاں ان سے 5 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔

وزیراعظم نواز شریف نے لیگی رہنما نہال ہاشمی کے متنازع بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں اسلام آباد طلب کرلیا تھا اور ساتھ ہی نہال ہاشمی کے خلاف پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پرانضباطی کارروائی کاحکم بھی دیا تھا۔

بعدِ ازاں گزشتہ برس 31 مئی 2017 کو مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی جانب سے نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نہال ہاشمی سے سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ طلب کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ

نہال ہاشمی نے پارٹی کی رکنیت سے محروم ہونے کے بعد سینیٹ کی نشست سے بھی استعفیٰ دےت دیا تھا تاہم چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا تھا کہ جبکہ انہیں بحیثیت سینیٹر کام جاری رکھنے کی رولنگ دی گئی تھی۔

بعدِ ازاں مسلم لیگ (ن) کی انضباطی کمیٹی نے نہال ہاشمی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان سے عدلیہ کو 'دھمکیاں دینے' اور پارٹی قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی وضاحت طلب کی جاسکے۔

بعدِازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کا ازخود نوٹس لیا اور معاملہ پاناما کیس عملدرآمد بینچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اس نوٹس پر سماعت کر رہا تھا جس میں گزشتہ سماعت کے دوران نہال ہاشمی نے غیر مشروط معافی بھی مانگی تھی جسے یکم فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران مسترد کردیا گیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نہال ہاشمی کو دھمکی آمیز تقریر اور توہینِ عدالت کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے ادا کرنے کا حکم جاری کیا تھا اور انہیں کسی بھی عوامی عہدے کے لیے 5 سال کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔