یہ درگاہ شیخ بھرکیو کی ہے یا پھر راجہ ویر کی؟
یہ درگاہ شیخ بھرکیو کی ہے یا پھر راجہ ویر کی؟
زندگی ایک تسلسل کا نام ہے۔ جب تک سانس کی ڈوری ٹوٹتی نہیں ہے تب تک زندگی کی پگڈنڈیوں پر چلنا پڑتا ہے۔ اس سفر میں چھاؤں کم اور دھوپ زیادہ ہوتی ہے اور ہم اس دھوپ کو ایک حد تک تو برداشت کرسکتے ہیں مگر مجذوب نہیں ہوتے کہ برداشت کی کوئی سرحد نہ ہو۔ گرد کوئی لکیر نہ ہو۔ ہم سیدھے سادے سے انسان ہیں۔ اگر خوشی کچھ توقع سے زیادہ مل جائے تب بھی آنکھیں بھر آتی ہیں اور اگر تکلیف برداشت سے باہر ہو تب بھی رو پڑتے ہیں کہ ہمارے زندگی کے سفر میں ریگستان بہت ہوتے ہیں۔
زندگی کی دھوپ تپتی ہے تو دردوں کی گرمی پیروں میں بہت چُبھتی ہے۔ تب ہماری تمنا ہوتی ہے کہ، اس دشت میں کوئی چھوٹا ہی سہی درخت نظر آجائے کہ دھوپ کے یہ تپتے پل اس کی چھاؤں کے نیچے گزارلیں۔ ان پلوں میں درخت کی چھاؤں کا تصور اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ اُس کے متعلق تصور کرتے ہی آسودگی کی ٹھنڈک خون میں بہنے لگتی ہے۔
16ویں صدی کے ابتدائی برس اپنے ساتھ اس خطے کے لیے بہت ساری خون میں ڈوبی ہوئی تبدیلیاں لائے۔ مگر جہاں منفی حرکتیں ہوتی ہوں وہاں مثبت چھاؤں کے بھی جنگل اُگ ہی پڑتے ہیں۔ ارغونوں کے خون میں جو دیگر علاقوں پر قبضہ کرنے کی جو وحشت بستی تھی اُن کی ان منفی سرگرمیوں کو روکنے میں صوفی اس خون سے بھرے منظرنامے میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے کوشاں رہیں۔ وہ کوششیں اور خون کا دیا ہوا دان تاریخ کی آنکھوں سے یقیناً پوشیدہ نہیں ہے۔ صوفی شاہ عنایت شہید کو مغل دربار میں دھوکے اور فریب سے 8 جنوری 1718ء کو قتل کردیا گیا تھا۔ تاریخ کے اوراق میں اس واقعے سے تقریباً 193 برس پہلے ہمیں دھوکے و فریب سے کیے گئے ایک اور قتل کے واقعے کا پتہ چلتا ہے۔ یہ واقعہ ’مخدوم بلاول شہید‘ کا ہے۔