یہ درگاہ شیخ بھرکیو کی ہے یا پھر راجہ ویر کی؟

یہ درگاہ شیخ بھرکیو کی ہے یا پھر راجہ ویر کی؟

ابوبکر شیخ

زندگی ایک تسلسل کا نام ہے۔ جب تک سانس کی ڈوری ٹوٹتی نہیں ہے تب تک زندگی کی پگڈنڈیوں پر چلنا پڑتا ہے۔ اس سفر میں چھاؤں کم اور دھوپ زیادہ ہوتی ہے اور ہم اس دھوپ کو ایک حد تک تو برداشت کرسکتے ہیں مگر مجذوب نہیں ہوتے کہ برداشت کی کوئی سرحد نہ ہو۔ گرد کوئی لکیر نہ ہو۔ ہم سیدھے سادے سے انسان ہیں۔ اگر خوشی کچھ توقع سے زیادہ مل جائے تب بھی آنکھیں بھر آتی ہیں اور اگر تکلیف برداشت سے باہر ہو تب بھی رو پڑتے ہیں کہ ہمارے زندگی کے سفر میں ریگستان بہت ہوتے ہیں۔

زندگی کی دھوپ تپتی ہے تو دردوں کی گرمی پیروں میں بہت چُبھتی ہے۔ تب ہماری تمنا ہوتی ہے کہ، اس دشت میں کوئی چھوٹا ہی سہی درخت نظر آجائے کہ دھوپ کے یہ تپتے پل اس کی چھاؤں کے نیچے گزارلیں۔ ان پلوں میں درخت کی چھاؤں کا تصور اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ اُس کے متعلق تصور کرتے ہی آسودگی کی ٹھنڈک خون میں بہنے لگتی ہے۔

16ویں صدی کے ابتدائی برس اپنے ساتھ اس خطے کے لیے بہت ساری خون میں ڈوبی ہوئی تبدیلیاں لائے۔ مگر جہاں منفی حرکتیں ہوتی ہوں وہاں مثبت چھاؤں کے بھی جنگل اُگ ہی پڑتے ہیں۔ ارغونوں کے خون میں جو دیگر علاقوں پر قبضہ کرنے کی جو وحشت بستی تھی اُن کی ان منفی سرگرمیوں کو روکنے میں صوفی اس خون سے بھرے منظرنامے میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے کوشاں رہیں۔ وہ کوششیں اور خون کا دیا ہوا دان تاریخ کی آنکھوں سے یقیناً پوشیدہ نہیں ہے۔ صوفی شاہ عنایت شہید کو مغل دربار میں دھوکے اور فریب سے 8 جنوری 1718ء کو قتل کردیا گیا تھا۔ تاریخ کے اوراق میں اس واقعے سے تقریباً 193 برس پہلے ہمیں دھوکے و فریب سے کیے گئے ایک اور قتل کے واقعے کا پتہ چلتا ہے۔ یہ واقعہ ’مخدوم بلاول شہید‘ کا ہے۔

مقبرہ مخدوم بلاول
مقبرہ مخدوم بلاول

مخدوم بلاول 1451ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق سندھ کے سمہ حکمرانوں کے خاندان سے تھا۔ مخدوم صاحب فقیری صفت کے مالک تھے۔ اُنہیں عربی اور فارسی زبان پر بھی مَلکہ حاصل تھا اور اسلامی دینی علوم حاصل کرکے بڑے عارف، فَقِیہ اور عالم بنے۔ بعد میں مخدوم ٹلٹی سے ہجرت کرکے موجودہ دادو ضلع کے گاؤں باغبان میں رہائش پذیر ہوئے۔ ’باغبان‘ موجودہ گاؤں ’مخدوم بلاول‘ کا قدیمی نام ہے۔

مخدوم علم کی ترویج کے لیے مدرسہ چلاتے اور ذریعہ معاش کے لیے، چرخوں پر کپڑا بنانے کا کام شروع کیا۔ وہ خود بھی چرخوں پر کپڑا بُننے کا کام کرتے۔ اُس کے کردار کی وجہ سے وہ اپنے علاقے کے مشہور اور پسندیدہ انسان تھے۔ مخدوم صاحب کی شہادت کی منصوبہ بندی کہاں ہوئی؟ اس کے متعلق بعد میں بات کرتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق لکھتے ہیں، ’1521ء میں شاہ بیگ ارغون نے سندھ پر حملہ کرکے ٹھٹہ پر قبضہ کیا۔ واپسی پر باغبان پر حملہ کرنا چاہا مگر مخدوم کے طُلبہ اور عقیدت مندوں نے شاہ بیگ کی شدید مزاحمت کی۔ بعد میں ایک سازش کے ذریعے شاہ بیگ ارغون نے مخدوم صاحب کو، پہلی محرم 929ھ بمطابق 20 نومبر 1522ء بدھ کے دن شہید کیا‘۔

میں جب حیدرآباد سے اگھم کوٹ پہنچا تو جاڑے کے ابتدائی دن تھے۔ دھوپ زیادہ اچھی نہیں لگ رہی تھی، اس دھوپ میں اگر کیکر کا درخت نظر آجائے تو اُس کی چھاؤں ابھی بھی اچھی لگ رہی تھی۔ یہ وہی تاریخی مقام ہے جہاں مرزا شاہ بیگ ارغون نے مخدوم بلاول کو شہید کرنے کی سازش تیار کی تھی۔

نظام الدین لغاری اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں، ’مخدوم بلاول کو شہید کرنے کا فیصلہ شاہ بیگ ارغون کے بیٹے ’شاہ حسن ارغون‘ نے کیا تھا، مکمل فیصلہ اور فتویٰ یہاں تیار ہوا تھا۔ یہاں شاہ حسن ارغون کی طرف سے میاں محمد سومرو اگھم کوٹی، فتویٰ دینے والے کا وکیل تھا، جبکہ مخدوم بلاول کی طرف سے دوسروں کے ساتھ، شیخ بھرکیو ولد عیسو کاتیار وکیلِ دفاع تھا، جب مرزا نے اگھم کوٹ میں مخدوم بلاول کے لیے فتویٰ دینے کے لیے کہا تو شیخ بھرکیو نے انکار کیا تھا‘۔ لغاری صاحب سے حاکم کے نام میں شاید کچھ ابہام رہ گیا ہے کیونکہ ڈاکٹر غلام محمد لاکھو لکھتے ہیں، ’اس شہادت کا واقعہ شاہ بیگ ارغون کے وقت میں ہوا، جس کا 930 ھ بمطابق 1524ء کے جولائی کے گرم مہینے میں درد دل کی وجہ سے انتقال ہوا تھا’۔

اگر آپ چاہیں تو اگھم کوٹ سے سیدھے مغرب شمال میں نکل جائیں تو وہ مقام آجائے گا جہاں صوفی بزرگ شیخ بھرکیو کی آخری آرامگاہ ہے مگر چونکہ ایسا ممکن ہو نہیں سکے گا تو آپ اگھم کوٹ سے گلاب لغاری کے چھوٹے سے شہر میں آئیں اور وہاں سے شمال مغرب طرف جو راستہ نکلتا ہے وہ فقط 13 کلومیٹر ہے۔

شیخ بھرکیو کی آخری آرام گاہ—تصویر ابوبکر شیخ
شیخ بھرکیو کی آخری آرام گاہ—تصویر ابوبکر شیخ

شیخ بھرکیو کی درگاہ کا دروازہ—تصویر ابوبکر شیخ
شیخ بھرکیو کی درگاہ کا دروازہ—تصویر ابوبکر شیخ

شیخ بھرکیو کی درگاہ—تصویر ابوبکر شیخ
شیخ بھرکیو کی درگاہ—تصویر ابوبکر شیخ

زمین زرخیز ہے اس لیے راستے کے دونوں طرف کھیت ہیں اور ان کے بیچ سے گزرتے ہوئے آپ اس صوفی بزرگ کی درگاہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ میں جب وہاں پہنچا تو درگاہ کا سالانہ عرس اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ میلے کی چھوٹی سی بازار کی بچی ایک یا 2 دکانوں کا سامان سمیٹا جا رہا تھا اور اس طرح ایک برس گزر جانے کا چکر پورا ہوا۔

درگاہ کی چار دیواری کے باہر سیمنٹ کے پکے فرش پر اب بھی کچھ انگوٹھیاں بیچنے والے اپنی دکان سجائے بیٹھے تھے۔ ان انگوٹھیوں کے رنگوں اور پتھروں میں بھی چھاؤں اور ایک طاقت چھُپی ہے۔ اب یہ اُس لینے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس انگوٹھی سے کتنا سکون اور کتنی انرجی حاصل کرتا ہے۔ ان انگوٹھیوں کے ساتھ کچھ بچوں کے رنگین کھلونے بھی ہیں۔ ان کو بیچنے والا لیٹا ہوا تھا کہ عرس کی وجہ سے آرام کم نصیب ہوا ہوگا۔ اُس کے پاس بہت انگوٹھیاں تھیں بیچنے کے لیے مگر اُس کے ہاتھوں میں کوئی انگوٹھی نہیں تھی۔عجیب انسان تھا، قسمت بدلنے کا شیریں تالاب اُس کے سامنے تھا اور وہ پیاس سے مرا جا رہا تھا!

انگھوٹیاں جبیچنے والا لیٹا ہوا تھا کہ عرس کی وجہ سے آرام کم نصیب ہوا ہوگا—تصویر ابوبکر شیخ
انگھوٹیاں جبیچنے والا لیٹا ہوا تھا کہ عرس کی وجہ سے آرام کم نصیب ہوا ہوگا—تصویر ابوبکر شیخ

شیخ بھرکیو کا مقبرہ—تصویر ابوبکر شیخ
شیخ بھرکیو کا مقبرہ—تصویر ابوبکر شیخ

شیخ بھرکیو کا مقبرہ—تصویر ابوبکر شیخ
شیخ بھرکیو کا مقبرہ—تصویر ابوبکر شیخ

شیخ بھرکیو سہروردی سلسلے کے بزرگ تھے اس لیے یہ مزار سہروردی سلسلے کی اہم درگاہ ہے۔ سندھ مخدوم نوح بکھری کے توسط سے سہروردی طریقہ سے روشناس ہوئی۔ پھر حضرت غوث بہاؤالدین ملتانی نے اس سلسلے کو تقویت دی، 10ویں صدی میں مخدوم بکھری کا ہمنام غوث الحق مخدوم نوح ہالا والے پیدا ہوئے جس نے اس سلسلے کو اوج پر پہنچایا۔

شیخ بھرکیو کے متعلق بہت سی روایات سُننے کو ملتی ہیں۔ جن سے یہ اخذ کرنا بالکل آسان ہوجاتا ہے کہ انہیں اس دنیا کے رنگوں میں کبھی جاذبیت نظر نہیں آئی اور نہ ہی دھوپ چھاؤں ان بزرگ کے لیے کوئی اہمیت رکھتی تھی۔ شاید وہ قوت ارادی پر اس حد تک غالب تھے کہ جاڑوں کی ٹھنڈک میں کبھی انہوں نے الاؤ جلانے کا نہیں سوچا اور نہ ہی تیز دھوپ میں کسی چھاؤں کی تمنا کی۔ انہوں نے سندھ کے علاوہ پنجاب، کَچھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات تک سفر کیے۔ اپنی حیات میں وہ سچے صوفی رہے۔ ذوالفقار علی کلہوڑو لکھتے ہیں، ’بٹوارے سے پہلے مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی درگاہ پر سالانہ میلہ لگاتے تھے اور ’راجہ ویر‘ کے لقب سے بلاتے تھے۔ اب ہندو میلہ تو نہیں لگاتے مگر آتے ضرور ہیں‘۔

آپ جیسے درگاہ کی چار دیواری کے اندر داخل ہوتے ہیں تو دائیں ہاتھ پر آپ کو ایک نیم کا پیڑ نظر آتا ہے جس میں کچھ گھنٹیاں بندھی ہوئی ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
آپ جیسے درگاہ کی چار دیواری کے اندر داخل ہوتے ہیں تو دائیں ہاتھ پر آپ کو ایک نیم کا پیڑ نظر آتا ہے جس میں کچھ گھنٹیاں بندھی ہوئی ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

’شیخ بھرکیو‘ سہروردی سلسلے کے بزرگ تھے اس لیے یہ مزار ’سہروردی‘ سلسلے کی اہم درگاہ ہے—تصویر ابوبکر شیخ
’شیخ بھرکیو‘ سہروردی سلسلے کے بزرگ تھے اس لیے یہ مزار ’سہروردی‘ سلسلے کی اہم درگاہ ہے—تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ شیخ بھرکیو—تصویر ابوبکر شیخ
درگاہ شیخ بھرکیو—تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ شیخ بھرکیو —تصویر ابوبکر شیخ
درگاہ شیخ بھرکیو —تصویر ابوبکر شیخ

میں درگاہ کی طرف بڑھا تو میں نے دیکھا ایک پھٹے پرانے کپڑوں والا مرد تھا اور ساتھ میں ایک عورت تھی۔ عورت کے ساتھ ایک بچی تھی جس کی عمر 3 برس سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ گھنٹیاں بجانے کی کوشش کرتی مگر پہنچ نہیں پا رہی تھی۔ بس کچھ انچز کا فاصلہ تھا، مگر وہ اُس بچی کے لیے بہت تھا۔ شاید ایک ٹانگ جس سے وہ تھوڑا لنگڑا کر چلتی اُس میں شدید درد ہوگا کہ وہ کُود کر گھنٹیوں کے چُھونے کی تمنا کو پورا نہیں کر پا رہی تھی۔ ویسے بھی غریب کی تمناؤں کا کیا ہے۔ ان کی تمنائیں ایسے درختوں کی طرح ہوتی ہیں، جن میں ثمر کبھی نہیں لگتا۔ پھر ماں نے بچی کو اُٹھایا اور اس کے ہاتھ سے گھنٹیاں بجوائیں۔ گھنٹیوں کی ترنگ پھیلی تو ماحول پر ایک اسراروں سے بھری کیفیت کسی ٹھنڈی دھند کی طرح چھا سی گئی۔

یہ چاروں کناروں پر بنے ہوئے میناروں اور بیچ میں بنے ہوئے گنبد کی ایک نہایت خوبصورت درگاہ ہے جو یقیناً کلہوڑا دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس درگاہ کے حُسن میں، درگاہ کے مغرب میں بنی ہوئی 3 گنبدوں والی وہ مسجد بھی شامل ہے جس کا مرکزی گنبد بڑا ہے جبکہ شمال اور جنوب والے چھوٹےچھوٹے گنبد ہیں۔

لکڑی پر بنے ہوئے نقش و نگار—تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی پر بنے ہوئے نقش و نگار—تصویر ابوبکر شیخ

لکڑی پر بنے ہوئے نقش و نگار—تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی پر بنے ہوئے نقش و نگار—تصویر ابوبکر شیخ

یہاں ماضی قریب میں بنی ہوئی ایک خوبصورت مسجد بھی ہے۔ اس مسجد کے جنوب میں تالپور دور کی بنی ہوئی لکڑی کی شاندار مسجد ہے۔ یہ لکڑی پر بنے ہوئے نقش و نگار کا ایک شاہکار نمونہ ہے۔ پھر دیواروں پر گنبد نما جو جگہ چھوڑی گئی ہے اُس پر پکے رنگ سے بُرش کا انتہائی نفیس اور نازک کام کیا گیا ہے۔ ہر گنبدی نشان کے اندر الگ الگ پھول پتیاں بنائی گئی ہیں، جن کے خوشنما رنگوں کو دیکھ کر بہت اچھا محسوس ہوتا ہے۔ پھر چھت ہے جس میں ٹیئر گارڈر کی جگہ لکڑیوں کو استعمال کیا گیا ہے۔

چھت کو کاشی کی اینٹوں سے بند کیا گیا ہے۔ کاشی کا یہ انتہائی شاندار کام ہے۔ کاشی کی اینٹوں پر 6 سے 7 کے قریب ڈیزائن بنائے گئے ہیں جنہیں ایک ترتیب سے جما دیا گیا ہے۔ جس سے یہ چھت بہت ہی دلکش اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس طرح لکڑی کی مسجدیں زیریں سندھ میں آپ کو دیکھنے کے لیے مل جاتی ہیں کیونکہ ایک زمانے میں لکڑی کی یہاں بڑی بہتات رہی ہے لہٰذا لکڑی پر نقش و نگاری کا پرانے وقتوں کا فن کہیں کہیں نظر آجاتا ہے۔ اس ڈیلٹائی علاقے اور شیخ بھرکیو کے قریب نصرپور نامی شہر ہے جو کاشی کی اشیاء بنانے کا مشہور مرکز ہے، اسی وجہ سے درگاہ پر بھی آپ کو کاشی کی اینٹوں کا بڑا زبردست کام دیکھنے کو مل جاتا ہے۔

مسجد کی چھت
مسجد کی چھت

مسجد میں لکڑی کا نہایت نفیس کام دیکھنے کو ملتا ہے—تصویر ابوبکر شیخ
مسجد میں لکڑی کا نہایت نفیس کام دیکھنے کو ملتا ہے—تصویر ابوبکر شیخ

لکڑی کے کام ایک نمونہ—تصویر ابوبکر شیخ
لکڑی کے کام ایک نمونہ—تصویر ابوبکر شیخ

میں جب درگاہ کے اندر داخل ہوا تو وہی ٹھنڈک مجھ پر برف کے ان دیکھے گالوں کی طرح برس بڑی جو ان درگاہوں کا خاصہ ہے۔ درگاہ اندر بالکل سفید ہے۔ دودھ جیسی۔ کچھ لوگ دعائیں مانگ رہے تھے۔ کچھ دیر پہلے اپنے ماں باپ کے ساتھ آنے والی لڑکی کے والدین بڑے سکون اور خاموشی سے دھیان لگائے بیٹھے تھے۔ بچی جو شاید ٹانگ میں درد ہونے کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتی تھی وہ ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹی تھی۔ میں مُرشد اور معتقد کے بیچ میں زیادہ رخنہ ڈالنا نہیں چاہتا تھا اس لیے کُچھ تصویریں لیں اور باہر آگیا۔

لکڑی والی مسجد کی تصاویر لینے کے بعد میں مسجد کی مغربی دیوار پر پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا۔ نیم کا پیڑ سامنے تھا۔ گھنٹیاں بجتی رہیں۔ درگاہ کا مرکزی دروازہ چاہے ہندو ہو یا مسلمان، ہر کسی کے لیے کھلا ہوا تھا۔ کوئی بھی ہو بس انسان ہو۔ اُس کی پریشانی، اُس کی تکلیف، اُس کے زخم اس پوری کائنات کے درد ہیں۔ جو سمجھتے ہیں کہ یہاں آکر چھٹکارے کی چھاؤں نصیب ہوگی اُن کا یہاں تانتا بندھا رہتا ہے۔ نہ جانے کتنی دُور سے اس درگاہ پر لوگ آتے ہیں اور سکون و چھٹکارے کی کیفیتیں اپنی گٹھڑیوں میں باندھ کر چل پڑتے ہیں کہ جیون ایک تسلسل کا نام ہے۔


حوالہ جات:

۔ ’سمن جی سلطنت‘-ڈاکٹر غلام محمد لاکھو

۔ ’تحفۃ السالکین‘-مولانا عبدالصمد ھالیجوی

۔ ’نگری نگری پھرا مسافر‘- ابوبکر شیخ

۔ انسائیکلوپیڈیا سندھیانا


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔