’ہم یہ بلند و بانگ دعوے نہیں کرتے کہ ہم زنگ آلود پائپ لائنوں کا زنگ، بیکٹیریا، کیڑے اور دیگر جراثیم پر مشتمل آلودگی صاف کرسکتے ہیں جو زیرِ زمین ٹینکوں میں موجود پانی میں عام ہے (جہاں سے میونسپلٹیاں اور ٹینکر پانی حاصل کرتے ہیں)۔ مگر ہم یہ گارنٹی دیتے ہیں کہ آپ جو بھی قطرہ پیے گیں، اگر وہ آپ کے نلکے پر موجود ہمارے فلٹر سے گزرا ہے، تو وہ چھوٹے سے چھوٹے وائرس یا بیکٹیریا سے پاک ہوگا، وہ بھی کسی ضرر رساں کیمیکل یا بجلی کے استعمال کے بغیر۔‘
انہیں واٹر اینڈ سینیٹیشن اتھارٹی (واسا)، پی سی آر ڈبلیو آر، پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) اور یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی جانب سے سرٹیفیکیشن مل چکی ہے۔
پی وی ایس کے ترجمان کے مطابق فلٹر کی ایک طویل شیلف لائف ہے۔ ان کے مطابق یہ زندگی بھر چل سکتا ہے جب کہ اس کی جھلی کو سال میں صرف ایک مرتبہ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔
سہیل بتاتے ہیں کہ ’5 سے 6 افراد پر مشتمل گھرانہ جو پینے کے لیے صرف بوتل بند پانی استعمال کرتا ہے، اس کے لیے سالانہ اخراجات کا محتاط اندازہ 30 ہزار روپے ہے‘۔ وہ فوراً ایک پرچی پر حساب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اگر وہ پاک ویٹا استعمال کرلیں تو اس کا خرچہ صرف 5 ہزار سے 8 ہزار روپے سالانہ ہوگا۔‘ ان کے مطابق کمپنی فلٹر کا ڈیزائن نہ صرف ’دوستانہ‘ بلکہ ’اسٹائلش‘ ہونے کا بھی وعدہ کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپنی نلکوں پر لگ سکنے والے فلٹرز کے علاوہ پی وی ایس ہینڈ پمپس، میٹھے پانی کے کنوؤں، پانی کے ڈول اور دیہی گھروں کے لیے فلٹرز پر بھی کام کر رہی ہے۔
فی الوقت یہ کچھ غیر سرکاری تنظیموں، پاک فوج، کچھ طبی اور تعلیمی اداروں اور چھوٹے کاروباروں کے ساتھ کام کر رہی ہے مگر کئی دوسرے بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
گزشتہ سال اس اسٹارٹ اپ کو حکومت نے سب سے زیادہ تخلیقی سوچ پر ایوارڈ (Most Innovative Award) سے بھی نوازا تھا، اور اس سے بھی زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ پی وی ایس نے اپنی موجودگی کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کروایا ہے جس میں کئی بین الاقوامی ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز بشمول ہیلو ٹومارو، فالنگ والز اور ینگ واٹر سلوشنز شامل ہیں۔
انگلش میں پڑھیں۔
لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر رابطہ کریں: Zofeen28@
یہ مضمون ڈان اخبار کے ایئوس میگزین میں 21 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔