ابن بطوطہ: سرسبز اور خوشحال سندھ میں
ابن بطوطہ: سرسبز اور خوشحال سندھ میں
تصور کریں کہ آپ ایک پہاڑی پر کھڑے ہیں۔ ہوا بس کسی معصوم بچے کی طرح چھوٹے چھوٹے قدموں سے دھیرے دھیرے سے چل رہی ہے۔ کیکر کے درخت ہیں جن پر ہریالی کے ساتھ پیلے سے پھول ایسے آئے ہیں جیسے پیلو کے درخت پر تیز سُرخ رنگ کا میوہ آتا ہے۔ کچھ چڑیوں اور دوسرے پرندوں کی آوازیں ہیں اور بس خاموشی کی ایک چادر ہے جو حدِنظر تک تنی ہوئی ہے۔
پھر دُور سے گُھنگروؤں کی آواز کانوں تک پہنچتی ہے اور پھر مسلسل آواز بڑھتی جاتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے سانپ کی لکیر کی طرح بچھے ہوئے راستے پر ایک آدمی دوڑتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں 6 فٹ کی ایک لکڑی ہے جس کے اوپری سرے پر گھنگرو بندھے ہوئے ہیں جن کی آواز دُور سے سنائی دے رہی تھی۔ یہ وہ ’برید‘ کے نظام کا ایک پوسٹ مین ہے جو خط و کتابت کا پلندا لیے دوڑتا جا رہا ہے۔
ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایسا دوسرا پوسٹ مین یہ آواز سُن کر تیار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ دوڑتے آنے والا یہ پلندا اس کو تھمائے گا اور اس طرح ہزاروں کلومیٹر دُور بیٹھے بادشاہ تک یہ خط و کتابت 5 دنوں میں پہنچ جائے گی۔ پھر جواب کی صورت وہاں سے جو احکامات ملیں گے وہ بھی اتنے ہی دنوں میں پہنچ جائیں گے۔
ڈاک کی اس تیز سروس سے بادشاہوں کو ملک کے کونے کونے سے خبروں کے ساتھ میوہ جات بھی مل جاتے تھے اور جس ندی کا پانی اُن کو اچھا لگتا تھا وہ بھی پینے کے لیے پہنچ جاتا تھا۔ یہ منظرنامہ آج سے تقریباً 7 صدیوں پہلے کا ہے جب سندھ میں 1011ء میں سومرا سرداروں کی قائم کی گئی حکومت 300 برس پورے کرکے اپنے آخری ایام میں آ پہنچی تھی اور جہاں جہاں سومرا رجواڑوں کا زور کم پڑتا وہاں دہلی سرکار کے گورنر آجاتے اور دہلی سرکار کی حکومت کا جھنڈا لہرانے لگتا۔