ابن بطوطہ: سرسبز اور خوشحال سندھ میں

ابن بطوطہ: سرسبز اور خوشحال سندھ میں

ابوبکر شیخ

تصور کریں کہ آپ ایک پہاڑی پر کھڑے ہیں۔ ہوا بس کسی معصوم بچے کی طرح چھوٹے چھوٹے قدموں سے دھیرے دھیرے سے چل رہی ہے۔ کیکر کے درخت ہیں جن پر ہریالی کے ساتھ پیلے سے پھول ایسے آئے ہیں جیسے پیلو کے درخت پر تیز سُرخ رنگ کا میوہ آتا ہے۔ کچھ چڑیوں اور دوسرے پرندوں کی آوازیں ہیں اور بس خاموشی کی ایک چادر ہے جو حدِنظر تک تنی ہوئی ہے۔

پھر دُور سے گُھنگروؤں کی آواز کانوں تک پہنچتی ہے اور پھر مسلسل آواز بڑھتی جاتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے سانپ کی لکیر کی طرح بچھے ہوئے راستے پر ایک آدمی دوڑتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں 6 فٹ کی ایک لکڑی ہے جس کے اوپری سرے پر گھنگرو بندھے ہوئے ہیں جن کی آواز دُور سے سنائی دے رہی تھی۔ یہ وہ ’برید‘ کے نظام کا ایک پوسٹ مین ہے جو خط و کتابت کا پلندا لیے دوڑتا جا رہا ہے۔

ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایسا دوسرا پوسٹ مین یہ آواز سُن کر تیار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ دوڑتے آنے والا یہ پلندا اس کو تھمائے گا اور اس طرح ہزاروں کلومیٹر دُور بیٹھے بادشاہ تک یہ خط و کتابت 5 دنوں میں پہنچ جائے گی۔ پھر جواب کی صورت وہاں سے جو احکامات ملیں گے وہ بھی اتنے ہی دنوں میں پہنچ جائیں گے۔

ڈاک کی اس تیز سروس سے بادشاہوں کو ملک کے کونے کونے سے خبروں کے ساتھ میوہ جات بھی مل جاتے تھے اور جس ندی کا پانی اُن کو اچھا لگتا تھا وہ بھی پینے کے لیے پہنچ جاتا تھا۔ یہ منظرنامہ آج سے تقریباً 7 صدیوں پہلے کا ہے جب سندھ میں 1011ء میں سومرا سرداروں کی قائم کی گئی حکومت 300 برس پورے کرکے اپنے آخری ایام میں آ پہنچی تھی اور جہاں جہاں سومرا رجواڑوں کا زور کم پڑتا وہاں دہلی سرکار کے گورنر آجاتے اور دہلی سرکار کی حکومت کا جھنڈا لہرانے لگتا۔

سلطان غیاث الدین تغلق کے دربار کی ایک پینٹنگ — پبلک ڈومین
سلطان غیاث الدین تغلق کے دربار کی ایک پینٹنگ — پبلک ڈومین

تغلقوں کی حکومت کو ترک اور ہندی نسل کی حکومت کہا جائے تو یہ شاید بہتر رہے گا۔ یہ سلطنت 1320ء سے 1414ء تک قائم رہی۔ اس سلطنت کی بنیاد رکھنے والا غیاث الدین تغلق کا باپ ایک ترک نسل کا غلام تھا جس نے یہاں ہندوستان میں شادی کی تھی۔ خلجیوں کے دورِ حکومت میں غیاث الدین دیپالپور کا گورنر تھا۔

علاؤالدین خلجی نے 1316ء میں یہ جہان چھوڑا۔ خسرو خان نے بغاوت کرکے علاؤالدین خلجی کے بیٹے مبارک خلجی کو قتل کرکے اپنی حکومت قائم کی مگر کچھ برسوں میں وہ دیپالپور کے گورنر غازی ملک (غیاث الدین تغلق) کے ہاتھوں اپنے ہی خون میں نہلا دیا گیا اور اسی طرح ٹھنڈے خون کی سرخ اور ٹھنڈی سیڑھیوں پر سے سفر کرتے وہ دہلی کا سلطان بنا اور اس طرح تُغلق حکومت کی بنیاد پڑی۔

مگر مکافاتِ عمل کا تیز نظریں رکھنے والا شاہین وقت کے درخت پر سب دیکھ رہا تھا۔ غیاث الدین کو اُس کے کانوں کے کچے اور طبیعت کے غلام بیٹے نے زہر دے کر مار ڈالا۔ اس کا نام سلطان محمد عادل بن تغلق شاہ تھا مگر تاریخ کے صفحات میں اس کو سلطان محمد شاہ اور محمد بن تغلق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی حکومت کا زمانہ 1324ء سے 1351ء تک کا ہے۔

جس طرح محمد بن تغلق نے اپنے باپ کو زہر دے کر مارا تھا، اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا۔ مکافاتِ عمل کے شاہین نے جھپٹا مارا مگر اس کے سانس کی ڈوری دہلی کے محلوں میں نہیں ٹوٹی بلکہ سندھ میں ٹھٹھہ کے قریب دریائے سندھ کے کنارے پلہ مچھلی کھانے کی وجہ سے ہوئی۔ پلہ مچھلی پر بس الزام ہی لگا، اصل میں خوراک میں زہر دے کر مار ڈالا گیا۔ ٹھٹھہ کے قریب سونڈا کے مقام پر اس کا جسم ٹھنڈا پڑا تو اِسی جگہ پر فیروز شاہ تغلق نے سلطنت دہلی کی بادشاہی کا تاج پہنا۔

محمد بن تغلق کے زمانے 1333ء میں دنیا کا مشہور سیاح سندھ اور ہند آیا تھا۔ وہ یہاں 9 برس کے قریب رہا۔ ان 9 برسوں میں وہ بہت گھوما جس کی وجہ سے ہمیں اُس دور کی تجارت، سیاست، بادشاہوں کے محلات، قدیم شہروں اور بہت سارے حقائق کے متعلق معلومات ملتی ہے۔ اس کے سفرنامے کو اگر تحقیق کی آنکھ سے دیکھا اور پرکھا جائے تو یہ معلومات کا ایک خزانہ ہے، اس لیے شکریہ ابن بطوطہ!

ابن بطوطہ کا اصل نام ابو عبداللہ محمد ابن بطوطہ ہے۔ ’ابن بطوطہ‘ اس کا خاندانی لقب تھا۔ یہ خاندان ابھی تک مراکش میں موجود ہے۔ محمد بن احمد ابن جزی جو ابن بطوطہ کے سفرناموں کا مؤلف اور مدیر ہے۔ اُس کی تحریر کے مطابق محمد بن عبداللہ 24 جنوری 1304ء عیسوی میں مراکش کے شہر ’طنجہ‘ میں پیدا ہوا جبکہ اس کی وفات مراکش میں ہی 1368ء میں ہوئی۔

مراکش شمالی افریقا میں ہے جس کی بحرِ اوقیانوس کے ساتھ ساحلی پٹی ہے۔ اس کے شمال میں اسپین سے ملتی بحری سرحد ہے۔ ابن بطوطہ نے ادب، تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کی اور 21 برس کی عمر میں سیاحت کے شوق میں نکل پڑا۔ افریقا کے بعد روس سے ترکی پہنچا، جزائر شرق الہند اور چین کی سیاحت کی۔ عرب، ایران، شام، فلسطین سے ہوکر وہ افغانستان پہنچا۔

1325ء سے 1332ء تک ابنِ بطوطہ کے سفر — بشکریہ وکی میڈیا کامنز
1325ء سے 1332ء تک ابنِ بطوطہ کے سفر — بشکریہ وکی میڈیا کامنز

ایم ایچ پنہور صاحب لکھتے ہیں: 'ابن بطوطہ سندھ آنے کے لیے کیسپیئن جھیل کے شمال میں، السارا اور سراچوق، خوارزم، المُوت، بُخارا، سمرقند، کش، ترمذ، بلخ، انادرب، پروان، کابل، غزنی اور گومل کے راستے سے ہوتا ہوا بلوچستان میں داخل ہوا۔ یہاں سے آنے جانے والے قافلوں کے ساتھ موجودہ شہر ژوب (فورٹ سنڈیمن)، بارکھان اور ڈیرہ بگٹی سے ہوتا ہوا سندھ کے ضلع جیکب آباد کی تحصیل ٹھل آ پہنچا۔'

ابن بطوطہ ستمبر 1333ء میں یہاں پہنچا تھا۔ یہ گرمیوں کا اختتامی موسم ضرور تھا مگر 15 نومبر تک موسم گرم رہتا ہے خاص کر اکتوبر کا مہینہ بہت گرم، ہوا کم، رات کچھ ٹھنڈی مگر کیڑے مکوڑے زیادہ نکلتے ہیں۔ تو نئے آدمی کے لیے یہ بیزار کردینے والا موسم ہوتا ہے۔ ہم اس تحریر میں یہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ ابن بطوطہ کی اُس تحریر اور سفر پر نظر رکھیں جب تک یہ صاحب سندھ میں رہا۔

سندھ کے متعلق اتنے قدیم ماخذ ہمیں کم ہی ملتے ہیں اور ہمیں یقیناً اس بہتر، رنگین مزاج اور پیسے خرچ کرنے والے انسان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ سندھ کے اتنے صدیوں پرانے منظرنامے ہمارے سامنے لے آیا۔ یہ ایک زبردست اور اہم سفرنامہ ہے۔ جس میں سندھ آج کل کے شب و روز جیسا بالکل بھی نظر نہیں آتا۔

لیون بینیٹ کی 1878ء میں بنائی گئی ابنِ بطوطہ کی پینٹنگ، جس میں انہیں مصر میں دکھایا گیا ہے — پبلک ڈومین
لیون بینیٹ کی 1878ء میں بنائی گئی ابنِ بطوطہ کی پینٹنگ، جس میں انہیں مصر میں دکھایا گیا ہے — پبلک ڈومین

اس سفرنامے میں ہم کو بے تحاشہ جنگل نظر آتے ہیں۔ ہرے بھرے اور جنگلی حیات ہمیں پھلتی پھولتی نظر آتی ہے۔ سیار بھی ہے تو لومڑی کی حرفت بھی نظر آتی ہے۔ پھر بھیڑیے کی وحشت سے بھری غراہٹ بھی سُنائی دیتی ہے۔ دریا اور جھیلیں ہیں جن میں بے تحاشا مچھلیاں ہیں۔ بھینسیں ہیں اور وافر مقدار میں دودھ اور مکھن کی فراوانی ہے۔ بندرگاہیں ہیں جہاں اتنی آوت جاوت ہے کہ وہاں لاکھوں کا ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے۔ اپنے زمانے کے بڑے بڑے شہر ہیں۔ فصلیں ہیں جو زمین کو سبز رنگ دینے کے علاوہ خوراک بھی اُگا کر دیتی ہیں۔

ابن بطوطہ یہاں گھنے جنگلوں کی بات کیا کرتا ہے بلکہ آپ کو بار بار بتاتا ہے کہ یہاں جنگل ہیں اور کس کس قسم کے جنگل ہیں۔ اس سفرنامے میں یہ بھی ہے کہ جن چیزوں کو دیکھا گیا ہے ان کو بس سرسری طور پر تحریر کردیا گیا ہے۔ بطوطہ صاحب کو اگر حیدرآباد کے گاڑی کھاتے سے کراچی کے صدر میں ریگل اسکوائر پر جانا ہے تو وہ فقط یہ لکھیں گے کہ 'حیدرآباد بڑا شہر ہے۔ یہاں سے میں کراچی کے لیے نکلا، یہ بھی بہت بڑا شہر ہے اور میں ریگل اسکوائر پہنچا'۔

اب حیدرآباد کے بعد نہ نوری آباد کا ذکر آئے گا، نہ پہاڑی علاقے کا، نہ بقائی ہسپتال کا، نہ سبزی منڈی کا، نہ سہراب گوٹھ کا، نہ ایم اے جناح روڈ کا اور نہ ہی تبت سینٹر کا ذکر ہوگا۔ ٹریفک اور گاڑیوں کے دھوئیں کا بھی ذکر نہیں ہوگا۔ تو ایسی تحریر سے راستے ڈھونڈنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ البتہ کبھی کبھار وہ شہروں کے لوگوں، زراعت اور موسم کا ذکر کردیتے ہیں۔ ہم ابن بطوطہ کے ساتھ فقط کچھ وقت ہی رہیں گے۔ وہ جیسے ہی سندھ کے شہر، گاؤں، نہریں، ندیاں اور بندرگاہ دیکھ کر واپس جائے گا تو ہم بھی ملتان سے اُس سے اجازت لے لیں گے۔

ابن بطوطہ جس موسم میں آیا تھا تب ٹھنڈ نہیں تھی تو دریائے سندھ اپنی ایک مخصوص دیوانگی میں بہتا تھا اور اس دیوانگی کو دیکھ کر بطوطہ لکھتا ہے ’سندھو دریا دنیا کے بہت بڑے دریاؤں میں شمار کیا جاتا ہے جس طرح مصر کی زراعت کا دار و مدار نیل کی طغیانی پر ہے اسی طرح یہاں کے باشندے بھی اس کی طغیانی پر جیتے ہیں۔ یہاں سے سلطان محمد شاہ، مسلمان بادشاہ ہند و سندھ کی عملداری شروع ہوتی ہے۔ ہم جب یہاں پہنچے تو بادشاہ کے پرچہ نویس ہمارے پاس آئے اور ہماری خبر انہوں نے فوراً ’قطب الملک‘ حاکم ملتان کے پاس بھیجی۔ سندھ کا امیر ان دنوں ’سر تیز‘ (یہ ترک تھا، بادشاہ اس پر اتنا مہربان ہوا کہ اپنی بیٹی سے اس کی شادی کروادی اور شاہی فوج کا امیر سپاہ بھی مقرر کیا) تھا اور سیوستان (موجودہ سہون) میں مقیم تھا۔ سیوستان سے ملتان تک 10 دن کا راستہ ہے اور ملتان سے دہلی تک 50 دن کا سفر ہے۔‘

1332ء سے 1347ء تک ابنِ بطوطہ کے سفر — بشکریہ وکی میڈیا کامنز
1332ء سے 1347ء تک ابنِ بطوطہ کے سفر — بشکریہ وکی میڈیا کامنز

اُس زمانے میں ڈاک کا نظام بہت بہتر تھا۔ آپ اگر اُن دنوں کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ڈاک کی اہمیت کا پتہ لگ جاتا ہے اور ہم بہتر تب ہی کہتے ہیں جب کوئی ادارہ ایک نظام کے تحت چلتا ہے۔ ابن بطوطہ بھی اِس نظام کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا تھا۔ اس کی تحریر کے مطابق 'یہاں جو ڈاک کا نظام ہے اُس کو ’برید‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ڈاک 2 قسم کی ہوتی ہے، ایک گھوڑے کی اور دوسری پیادوں کی۔ گھوڑوں کی ڈاک کو ’اولاق‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں ہر 4 کوس کے بعد گھوڑے کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس طرح سلسلہ آخری منزل تک جا پہنچتا ہے۔ پیادوں کی ڈاک کے لیے 2 میل (اندازاً 3 کلومیٹر) پر 3 چوکیاں ہیں۔ ڈاک لے جانے والے کو ’ہرکار‘ کہتے ہیں۔

'ان چوکیوں کے قریب گاؤں بنا ہوتا ہے جہاں یہ رہتے ہیں اور گاؤں سے باہر راستے پر ان کے لیے چوکیاں بنی ہوئی ہیں۔ ہرکارے کے پاس 6 فٹ کی ایک لکڑی ہوتی ہے جس کے اوپر تانبے کے گھنگرو بندھے ہوتے ہیں۔ وہ اس لیے ہوتے ہیں کہ دور سے ہی ان کی آواز سُن کر دوسرا ہرکارا دوڑنے کے لیے تیار ہوجائے۔ پھر جیسے ہی دوڑتا ہوا ہرکارا اس کے پاس پہنچتا ہے تو وہ اُس سے ڈاک کا پلندہ لے کر دوسری چوکی کی طرف تیز دوڑ لگا دیتا ہے۔ یہ ڈاک گھوڑوں کی ڈاک سے بھی تیزرو ہوتی ہے۔ اس ڈاک کے ذریعہ خراسان کے تازہ میوے بادشاہ کے لیے پہنچائے جاتے ہیں۔'

اب وہ مشکل وقت آگیا ہے جب ہم کو وہ بہاؤ، راستے، شہر اور بندرگاہیں ڈھونڈنی ہیں جہاں دنیا کا یہ بڑا سیاح، جغرافیہ دان اور مصنف ان دنوں میں آیا تھا۔ ایم ایچ پنہور اس حوالے سے لکھتے ہیں 'سہون تک جانے کے لیے اس نے دریائے سندھ کے مغربی بہاؤ لے کر سفر کیا۔ سہون سے پہلے اسے دریا کے مشرقی کنارے کے جنگل میں ایک سینگ والا گینڈا (1) (2) نظر آیا۔'

ابن بطوطہ لکھتے ہیں: 'ہم جب نہر عبور کرکے ایک بانس کے جنگل (مجھے نہیں پتہ کہ بانس کس طرح لکھا گیا ہے کیونکہ ان علاقوں میں بانس نہیں ہوتا تھا۔ پھوس اور سرکنڈے جو دریاؤں کے کنارے خودرو اُگتے ہیں، ان کی لمبی ڈنڈیاں 8 سے 12 فٹ تک ہوتی ہیں اور اُن میں بھی بانس کی طرح ایک یا دو فٹ پر نشانات ہوتے ہیں۔ تو اُن کو دیکھ کر اُسے بانس سے تشبیہہ دی ہوگی۔ مولوی عبدالرحمٰن نے ’گھاس‘ لفظ استعمال کیا ہے) میں داخل ہوئے جہاں سے راستہ گزرتا تھا تو ہم نے گینڈا دیکھا۔ کالے اور بھاری بھرکم ڈیل ڈول کا تھا۔ اس کا سر بڑا ہوتا ہے۔ دونوں آنکھوں کے برابر فاصلے پر پیشانی پر ایک بڑا سینگ ہوتا ہے۔ جب یہ گینڈا جنگل سے نکلا تو ایک سوار اس کے سامنے آگیا۔ گینڈے نے گھوڑے کو سینگ مارا اور سوار کی ران چیر کر اسے زمین پر گرا کر جنگل میں گم ہوگیا۔ اسی راستے میں عصر کے بعد ایک روز پھر ہم نے گینڈا دیکھا۔ وہ گھاس چر رہا تھا۔ ہم نے مارنے کا ارادہ کیا لیکن بھاگ گیا۔‘

ہندوستانی ریاست بڑودا میں گینڈوں کی لڑائی کی ایک پینٹنگ۔ کتاب سائیکلوپیڈیا آف یونیورسل ہسٹری، صفحہ 299
ہندوستانی ریاست بڑودا میں گینڈوں کی لڑائی کی ایک پینٹنگ۔ کتاب سائیکلوپیڈیا آف یونیورسل ہسٹری، صفحہ 299

موئن جو دڑو سے دریافت ہونے والی ایک مہر جس پر گینڈا بنا ہوا ہے
موئن جو دڑو سے دریافت ہونے والی ایک مہر جس پر گینڈا بنا ہوا ہے

دریا کے بہاؤ کے بعد ابن بطوطہ 2 منزلیں (ایک منزل کا مطلب 28 سے 30 میل کا سفر سمجھنا چاہیے) چلے تھے کہ 'جنانی' کے شہر پہنچے۔ یہ ’سومرا‘ قوم کا ایک خوبصورت شہر تھا۔ اب اس کے آثار موجود وارہ شہر سے 2 کلومیٹر مغرب میں انگریزوں کے بنے ہوئے ’جونانی انسپیکشن بنگلو‘ کے قریب موجود ہیں۔

بطوطہ کے مطابق: 'یہاں سومرہ قوم بستی تھی۔ یہ قوم اپنے سوا کسی اور کے ساتھ خوراک نہیں کھاتی تھی اور جب یہ کھاتے تو ان کی طرف دیکھنے کی کوئی ہمت نہیں کرتا اور نہ ہی اپنی قوم سے باہر رشتے داری کرتے تھے۔ اُس زمانے میں ان کا سردار ایک شخص 'ونار' نامی تھا۔'

پنہور اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ ’جنانی یا جونانی دریائے سندھ کے ایک مغربی بہاؤ پر آباد تھا اور ایک خوبصورت شہر تھا۔ سومروں کا ’وُنڑ‘ (اُنڑ) نامی ایک امیر تھا۔ جام اُنڑ، سومرہ اور سمہ قوموں کا اکٹھا سردار تھا جو تغلقوں کا عملدار تھا۔‘

اس کے بعد ابن بطوطہ 2 دن کے سفر کے بعد سہون شہر پہنچتا ہے اور سہون کو ریگستان میں بَسے ایک بڑے شہر کا اعزاز دیتا ہے۔ مگر ساتھ میں سہون کی گرمی کا ذکر بڑی بے دلی سے کرتا ہے: 'ہم جب یہاں پہنچے تو گرمی نہایت سخت پڑتی تھی۔ میرے ساتھی جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ایک کپڑا گیلا کرکے جسم پر لپیٹتے تھے اور دوسرا کپڑا پانی میں بھگو کر ساتھ رکھتے جیسے ہی پہلے والا کپڑا خشک ہوجاتا تو دوسرا گیلا کپڑا لپیٹ دیتے۔‘

یہاں اسے کیکر کے درخت بہت نظر آئے اور نہروں کے کناروں پر بے تحاشا خربوزے دیکھنے اور کھانے کو ملے۔ یہاں جن 2 خوراکوں کی بہتات تھی وہ بھینس کا دودھ اور مچھلی تھی جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ منچھر جھیل اور دریا کی وجہ سے مچھلی کی فراوانی تھی اور دوسری طرف گھاس والے اناج کی زمینیں آباد تھیں جس کی وجہ سے بھینسیں زیادہ تھیں۔ بھینس وہاں زندہ رہ سکتی ہے جہاں پانی زیادہ ہو اور اُس کے کھانے کے لیے گھاس زیادہ ہو۔ جو یہاں تھی۔

بطوطہ نے یہاں کے لوگوں کو ’سقنور‘ یعنی ریگ ماہی کھاتے بھی دیکھا تھا۔ اس کے مطابق: ’یہ جانور گوہ کے مشابہ ہوتا ہے لیکن اس کی دُم نہیں ہوتی۔ اسے ریت میں سے کھود کر نکالتے ہیں'۔ بلکہ اب تک باگڑی گلوئی (گوہ سے ملتا جُلتا)، سیار، ساہی، جنگلی بلی وغیرہ کھاتے ہیں۔ لہٰذا ابن بطوطہ نے اُن لوگوں کو یہ ضرور کھاتے ہوئے دیکھا ہوگا۔

سہون کے اس قدیم اور وسیع شہر کا خطیب شیبانی تھا، جس کے دادا کو خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے خطیب ہونے کا پروانہ دیا تھا اور شیبانی نے ابنِ بطوطہ کو وہ پروانہ دکھایا بھی تھا۔ اس شہر میں وہ 140 برس کے شیخ محمد بغدادی سے بھی ملا جو شیخ عثمان مروندی (حضرت لعل شہباز قلندر) کے زاویے میں رہتا تھا۔ ابنِ بطوطہ جس مدرسے کی چھت پر سوتا تھا وہاں سے شہر کی فصیل پر لٹکتی ہوئی لاشیں اُسے سوتے جاگتے نظر آتی تھیں، جس کی وجہ سے اُس نے وہ مدرسہ چھوڑ دیا تھا۔

حضرت لال شہباز قلندر کے مزار کا 1800ء میں بنایا گیا ایک خاکہ۔ — پبلک ڈومین
حضرت لال شہباز قلندر کے مزار کا 1800ء میں بنایا گیا ایک خاکہ۔ — پبلک ڈومین

سہون کے قلعے کے موجودہ آثار۔ — بشکریہ  sarfrazh/flickr
سہون کے قلعے کے موجودہ آثار۔ — بشکریہ sarfrazh/flickr

اب وہ مدرسہ اور شہر کی فصیل تو شاید ہمیں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں اور شاید وہ بازار بھی نہ ملیں جن کے وسط میں بغاوت کرنے والے لوگوں کی کھوپڑیاں جمع کرکے ڈھیر لگا دیا گیا تھا۔ یہ بغاوت ابن بطوطہ سے کچھ پہلے ہوکر گزری تھی۔ پنہور صاحب کے مطابق 'سہون میں دہلی سرکار کے عملداروں جام اُنڑ اور قیصر رومی نے مل کر بغاوت کی۔ ملک رتن جو خزانچی تھا اُس کو ترقی دے کر گورنر مقرر کیا گیا تو دہلی سرکار کا یہ فیصلہ ان دونوں کو گراں گزرا اور بہانہ بنا کر ’ملک رتن‘ کو قتل کردیا اور خزانے سے 12 لاکھ دینار لوٹ لیے۔ ’جام اُنڑ‘ کو ’ملک فیروز‘ کا لقب دیکر بالائی سندھ کا حاکم بنادیا۔

یہ خبر جب ملتان پہنچی تو ’سرتیز‘ لشکر کے ساتھ سہون کے لیے روانہ ہوا۔ یہ بات سُن کر ’جام اُنڑ‘ ٹھٹھ کی طرف چلا گیا۔ سرتیز نے 45 دن تک سہون کا محاصرہ جاری رکھا. آخر قیصر رومی نے امان مانگی۔ جب قیصر اور اُس کا لشکر امان کے وعدے پر باہر آیا تو سرتیز نے دغا کیا اور کسی کی جائیداد لوٹ لی، کسی کی گردن ماری جاتی، کچھ کو تلوار سے دو ٹکڑے کیا جاتا۔ کئیوں کی کھال کھینچ کر اُس میں بُھوسہ بھروا کر ان کو شہر کے فصیلوں پر لٹکایا جاتا۔ لاشیں اتنی زیادہ تھیں کہ قلعے کی دیواریں دیکھنے میں نہیں آتی تھیں۔‘

سہون میں ابن بطوطہ کی ہرات کے ایک شخص قاضی علاء الملک فصیح الدین خراسانی سے ملاقات ہوئی جو ہرات سے سرتیز کی اس جنگ میں مدد کرنے آیا تھا۔

ہمیں نہیں معلوم کہ جام اُنڑ نے تغلقوں کا امیر ہوتے ہوئے بھی بغاوت کیوں کی۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ سہون کے محاصرے کی مدد کے لیے ایک آدمی ہرات سے کیوں نکلا اور یہاں سہون آکر پہنچا۔ یہ ہی وہ شب و روز تھے جب ابن بطوطہ افغانستان اور بلوچستان سے ہوتا ہوا یہاں پہنچ جاتا ہے۔

سہون آنے پر بادشاہ نے خوش ہوکر، قاضی علاءالملک کو ’لاہری بندر‘ کا حاکم بنا دیا جہاں سے ایک برس میں 60 لاکھ دینار کا ٹیکس حاصل ہوتا تھا۔ یہ ایک اچھی رقم تھی۔ جو قاضی اور حکومت دہلی کو ملتی تھی مگر اس رقم کے بجائے ہمارے لیے اہم وہ سفر ہے جو ابن بطوطہ نے ’قاضی علاء الملک‘ کے ساتھ کیا۔ 5 دن کا یہ سفر بڑا دلچسپ تھا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ماضی کے اس سفر میں ان دونوں کے ساتھ ہم بھی ان کی شاہانہ کشتیوں پر سفر کریں۔

ابن بطوطہ قاضی کے ساتھ لاہری بندر جانے کے لیے تیار ہوا۔ اس بحری بیڑے میں 15 کے قریب بڑی کشتیاں تھیں۔ اس دلچسپ سفر کا احوال اگر ہم خود ابن بطوطہ صاحب سے سن لیں تو شاید بہتر ہوگا۔ وہ تحریر کرتے ہیں: 'قاضی علاء الملک کے پاس بڑی کشتی تھی جس کو ’آہورہ‘ کہتے ہیں۔ اس کو 40 ملاح چلاتے تھے۔ 4 چھوٹی کشتیاں اور تھیں، 2 دائیں طرف رہتی تھیں اور 2 بائیں طرف۔ 2 کشتیوں میں طبل اور نقارہ، عَلم اور شرنائی وغیرہ ہوتے تھے اور 2 کشتیوں میں اہل طرب (گانے بجانے والے) بیٹھتے تھے۔

'جب کشتی چلتی تھی تو کبھی نوبت بجائی جاتی کبھی مطرب راگ گانے لگتے۔ صبح سے لے کر دوپہر تک گاتے بجاتے چلتے۔ جب کھانے کا وقت ہوتا تھا اور سب کشتیاں پہنچ جاتیں تو دسترخوان بچھایا جاتا تھا۔ جب تک امیر علاءالملک کھانا کھاتے یہ لوگ گایا بجایا کرتے اور آخر میں خود کھاکر اپنی اپنی کشتیوں میں چلے جاتے۔ جب رات ہوتی تو کشتیاں دریا کے کنارے کھڑی کردی جاتیں اور خشکی پر خیمے لگا دیے جاتے۔

'جب سارا لشکر رات کا کھانا کھا چکتا تھا اور عشاء کی نماز سے فارغ ہوجاتا تھا تو چوکیدار نوبت بہ نوبت آتے تھے۔ جب ایک چوکیدار اپنی باری ختم کر لیتا تھا تو پُکار کر کہتا: اے آخوند، اتنی گھڑیاں رات گزر چکی ہے۔ جب صبح ہوتی تو پھر نوبت اور نقارے بجنے شروع ہوجاتے اور اس طرح گاتے بجاتے یہ بیڑہ پانچویں دن لاہری بندر پہنچا۔'

سہون کے قلعے کے موجودہ آثار — بشکریہ sarfrazh/flickr
سہون کے قلعے کے موجودہ آثار — بشکریہ sarfrazh/flickr

سہون کے قلعے کے موجودہ آثار — بشکریہ sarfrazh/flickr
سہون کے قلعے کے موجودہ آثار — بشکریہ sarfrazh/flickr

تھوڑا تصور تو کریں کہ کیا خوبصورت نظارہ ہوگا۔ نہ شور نہ دھواں نہ پانی میں گٹروں اور کارخانوں کا اخراج۔ بہاؤ کے کنارے کیکر، پیلو، لئی، پھوس اور سرکنڈوں کے جنگل اور ان جنگلوں میں پنپتی جنگلی حیات۔ پرندوں کی آوازیں ساتھ میں موسیقی اور آواز کے ترنگیں۔ رات کو بہاؤ کے کنارے شامیانے، الاؤ، شاندار خوراک، آسمان پر ٹھنڈی رات کا مہکتا چاند۔

یہ بیڑہ جس بہاؤ سے سہون سے لاہری یا لاڑی بندر پہنچا اس بہاؤ کے متعلق بہت سارے محققوں نے تحقیق کی ہے۔ ’پتھاوالا‘ کی تحقیق کے مطابق: 'یہ وہ ہی بہاؤ ہے جہاں اب روہڑی کینال ہے۔ یہ بہاؤ برہمن آباد سے شمال اور مغرب میں دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا۔ ایک بہاؤ جنوب میں نصرپور کے مشرق سے ہوتا ہوا جنوب مغرب میں ٹنڈو محمد خان کے قریب سے ہوتا ہوا ٹھٹھہ کے شمال سے گزر کر دیبل اور لاڑی بندر کے شمال میں جاکر سمندر میں گرتا تھا۔'

ابنِ بطوطہ کے ہندوستان میں سفر کا نقشہ — بشکریہ کتاب سفرنامہ شیخ ابن بطوطہ‘، مترجم: مولوی عبدالرحمٰن خانصاحب۔مکتبہ برہان،دہلی (1972ء)
ابنِ بطوطہ کے ہندوستان میں سفر کا نقشہ — بشکریہ کتاب سفرنامہ شیخ ابن بطوطہ‘، مترجم: مولوی عبدالرحمٰن خانصاحب۔مکتبہ برہان،دہلی (1972ء)

لاڑی بندر کا نام، تاریخ کے صفحات میں ہمیں 1224ء عیسوی میں خوارزم شاہ کے ہاتھوں دیبل کی بربادی کے بعد سننے کو ملتا ہے۔ ابن بطوطہ جب یہاں آیا تو لاڑی بندر ایک مصروف اور مشہور بندرگاہ تھی۔ ابن بطوطہ کے مطابق: ’یہ خوبصورت شہر سمندر کے کنارے واقع ہے۔ قریب ہی دریائے سندھ سمندر میں جا گرتا ہے۔ یہ شہر بڑی بندرگاہ ہے۔ یمن اور فارس کے جہاز اور تاجر بکثرت ہوتے ہیں، اس لیے یہ شہر بہت مالدار ہے اور اس کا محاصل (ٹیکس) بھی زیادہ ہے۔ علاءالملک مجھ سے کہتے تھے کہ، 'اس بندر کا محاصل ساٹھ لاکھ دینار ہے۔ امیرالملک کو اس کا 20واں حصہ ملتا ہے باقی مرکزی حکومت میں جمع ہوتا ہے'۔

'ایک روز میں امیرالملک کے ساتھ سیر کرنے گیا۔ شہر سے 7 کوس کے فاصلے پر ایک میدان ہے جس کو ’تارنا‘ کہتے ہیں۔ وہاں بے شمار آدمیوں اور حیوانات کی پتھر کی مورتیں ثابت اور ٹوٹی پھوٹی پڑی ہوئی ہیں اور غلہ، گیہوں، چنا وغیرہ پتھرائے ہوئے پڑے ہیں۔ فصیل اور مکانات کی دیواریں موجود ہیں۔ کھنڈرات میں کھدے ہوئے پتھر کا ایک گھر ہے۔ اس کے وسط میں ایک چبوترہ ہے جو ایک ہی پتھر کا ہے۔ اس پر ایک آدمی کا بت ہے۔ اس آدمی کا سر ذرا لمبا ہے اور منہ ایک طرف پھرا ہوا ہے۔ دونوں ہاتھ کمر سے کسے ہوئے ہیں۔

'اس جگہ پر بدبودار پانی کھڑا ہوا تھا۔ بہت سی دیواروں پر ہندی زبان اور خط کے کتبے تحریر ہیں۔ امیرالملک نے بتایا کہ اس ملک کے مؤرخ خیال کرتے ہیں کہ یہ شہر مسخ ہوگیا تھا اور چبوترے پر جو بُت ہے وہ بادشاہ کا تھا۔ چنانچہ اب بھی اس کو ’راجہ کا محل‘ کہتے ہیں۔ دیواروں کے کتبے سے پتہ لگتا ہے کہ یہ بربادی تقریباً ایک ہزار سال پہلے ہوئی تھی۔ میں امیر کے پاس 5 دن ٹھہرا۔ اس نے میری خاطر و مدارت بدرجہ غایت کی اور میرے لیے زاد راہ بھی تیار کروایا۔‘

ابن بطوطہ واپسی میں نصرپور، اُڈیرو لال، بکھر اور اُچ سے ہوتا ہوا مُلتان پہنچا۔ سندھ کے اس سارے سفر میں 7 مہینے ضرور لگے ہوں گے۔ ابن بطوطہ واپسی میں سہون نہیں گیا تھا، مگر سہون ابن بطوطہ کو پتہ نہیں کیوں نہیں بھول پایا؟ کہ اُسے 8 برس کے بعد پھر اپنے پاس بلایا، مگر فرق بڑا تھا۔ پہلے جب 1333ء میں آیا تھا تو بڑے شان و مان سے آیا تھا، مگر جب 1341ء عیسوی میں ابن بطوطہ بادشاہ کے بلانے پر سہون آیا تھا تو اپنا سب کچھ گنوا چکا تھا۔ فضول خرچی نے اُس کو کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ پھٹے پُرانے کپڑے بدن پر تھے اور پاؤں ننگے تھے۔ ابن بطوطہ کی اس کایا پلٹ کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے، جو ہمیں ضرور جاننی چاہیے، جس کے لیے ہمیں صدیوں پرانی دہلی کی گلیوں میں چلنا پڑے گا۔ یہ سفر پھر کبھی۔

مراکش کے شہر طنجہ میں وہ جگہ جو ممکنہ طور پر ابنِ بطوطہ کی قبر ہے — پبلک ڈومین
مراکش کے شہر طنجہ میں وہ جگہ جو ممکنہ طور پر ابنِ بطوطہ کی قبر ہے — پبلک ڈومین

ابن بطوطہ نے جو اپنا سفرنامہ تحریر کیا تھا، وہ اُس سے بحری قزاقوں نے چھین لیا تھا۔ یہ دوسرا سفرنامہ اُس نے اپنی یادوں کی بنیاد پر تحریر کیا جس کے منظرناموں میں تصویر مکمل نظر نہیں آتی، مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہت اچھا ہے۔ بطوطہ کا لاڑی بندر تک سفر اور پھر کچھ کوس پر ایک قدیم محل کو دیکھنے کے لیے جانا بھی تحقیق کے لیے بہت سارے سوالوں کے بیج تاریخ کے صفحات پر بوگیا ہے۔

ہم یقیناً کوشش کریں گے کہ آنے والے دنوں میں ہم لاڑی (لاہری) بندر اور تارنا (راجا کا محل) کے اہم تاریخی مقام کو ڈھونڈ سکیں۔


(1): ایک وقت میں تمام بالائی ہندوستان، پاکستان اور نیپال میں پائے جانے والا ہندی گینڈا اب فقط ہندوستان میں چند محفوط پناہ گاہوں میں زندہ ہے اور دنیا میں ساڑھے 3 ہزار ہندی گینڈے باقی رہ گئے ہیں۔

(2): وادیءِ سندھ سے جو قدیم مہریں ملی ہیں، اُن میں ایک سینگ والے گینڈے کی تصویر والی مہریں بھی ملی ہیں، جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سینگ والے گینڈے کے لیے دریائے سندھ کے کنارے بڑے اہم تھے۔ یہاں اُس کی نشو و نما کے لیے ضروری ماحول موجود تھا۔ جیسے گھاس، جنگل اور مٹی کا زرخیز کیچڑ۔ ابن بطوطہ کے زمانے یعنی 7 سے 8 سو برس پہلے بھی اس گینڈے کی نسل دریائے سندھ کے اس بہاؤ پر اچھی خاصی تعداد میں موجود تھی۔ مگر اب سارا لینڈ اسکیپ تبدیل ہوگیا ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے کب کے خشک ہوئے اور جنگلی حیات کی ایک دنیا جو ان کناروں پر آباد تھی وہ یا تو مر گئی یا یہاں سے نقل مکانی کر گئی۔


حوالہ جات

۔ ’سفرنامہ ابن بطوطہ‘، مترجم: رئیس احمد جعفری۔ نفیس اکیڈمی، کراچی (1986)

۔ ’خلاصہ تحفتہ النظار یعنی سفرنامہ شیخ ابن بطوطہ‘، مترجم: مولوی عبدالرحمٰن خانصاحب۔مکتبہ برہان،دہلی (1972ء)

۔ ’ابن بطوطہ جو سفر‘، مترجم: محمد ابراہیم عباسی۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد، (1995ء)

۔ ’تصویرِ سندھ‘، مصنف: ایم ایچ پنہور، سندھیکا اکیڈمی، کراچی (2012ء)


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔