آبادی کے بڑے حصوں میں ثقافتی تبدیلیوں کا واضح فرق ہمارے ملک میں میڈیا کے مستقبل پر پڑے گا۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا معلومات اور تفریح کے لیے ذوق اور ترجیحات روایتی، سنجیدہ اور یوں مستقبل میں بھی آج کے مواد کو پسند کرنے والے بن جائیں گے یا نہیں۔ یہ تصور کہ نوجوان اپنے والدین جیسے بن جائیں گے درحقیقت نسلوں کے درمیان اس خلیج کی وسعت اور اس خلیج کے بڑھنے کی رفتار کو مدِ نظر نہیں رکھتا۔ یہ وقت 1980ء کی دہائی جیسا نہیں ہے جب کوئی پی ٹی وی پر 7 سال کی عمر میں کارٹون دیکھتا تھا اور پھر 15 سال بعد خبرنامہ دیکھنا شروع کر دیتا تھا۔
کمرشل خدشات کے علاوہ ثقافتی مواد کی طلب کے واضح سیاسی نتائج بھی ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر خبروں اور تجزیات کا معیار بہت ہی ناہموار ہے اور جھوٹی خبروں یا فیک نیوز کی حقیقت لازماً نوجوانوں کی سیاست میں توجہ پر اثرانداز ہوتی ہے۔
خبروں کے روایتی ذرائع کے مستقبل کے بارے میں خدشات کے علاوہ نوجوانوں کے انٹرنیٹ پر سیاسی میل جول و گفتگو کے حوالے سے بھی خدشات ہیں جو اکثر غیر فلٹر شدہ، حقائق سے بالاتر اور انتہائی جانبدار ہوتے ہیں۔ چنانچہ آپ کس طرح ایسے ناظرین یا قارئین تیار کرسکتے ہیں جو حقیقت پسندانہ رپورٹنگ اور تجزیات پسند کریں اور پھر ان نوجوانوں تک اسی زبان اور انہی تکنیکوں کے استعمال کے ذریعے پہنچا جائے جو ان کی ترجیح ہے اور جس سے وہ سب سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔
اب جبکہ پاکستان میں میڈیا کے مستقبل کے بارے میں بحثیں زور پکڑ رہی ہیں تو یہ اور دیگر سوالات اہمیت کے حامل ہیں۔ قابلِ فہم ہے کہ میڈیا کی آزادی اور میڈیا کارکنان کے مالیاتی تحفظ پر ہماری سب سے زیادہ توجہ ہوگی۔ مگر شاید اس سے بھی زیادہ اہم یہ متوازی بحث شروع کرنا ہے کہ میڈیا اس وقت کس کے ذوق، ترجیحات اور دلچسپیوں کا تحفظ کر رہا ہے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ یہی مستقبل میں جا کر میڈیا کی قبر بن جائے؟
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔