سپریم کورٹ نے تنخواہیں ادا نہ کرنے والے میڈیا مالکان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر وضاحت کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں صحافیوں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران عدالتی حکم کے باوجود تنخواہیں ادا نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ میڈیا مالکان ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وضاحت کریں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کیپیٹل ٹی وی سب سے بڑا ڈیفالٹر ہے اور اس کے مالک نے 5 کروڑ جہاں سے لیے اس کا مجهے علم ہے اس لیے ہر صورت میڈیا کارکنان کو تنخواہیں ادا کریں۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا صحافیوں کوتنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی کا نوٹس

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کل (پیرکو) اس وقت کیس کی سماعت کروں گا جب عدالت میں صرف صحافی اور مالکان موجود ہوں گے۔

صحافیوں کی نوکریوں کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئندہ کسی صحافی کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا۔

عدالت نے اگلی سماعت میں سیکرٹری اطلاعات کو بهی طلب کر لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ جس میڈیا مالک نے تنخواہ اور واجبات ادا نہ کیے اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قرضے لیں، بهیک مانگیں، گاڑیاں، مکان گروی رکهوائیں لیکن صحافیوں کو تنخواہیں ادا کریں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے صحافیوں کو تجویز دی کہ صحافیوں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر بڑے بڑے اینکرز چینلز کا بائیکاٹ کریں۔

یاد رہے کہ رواں سال 8 فروری کو سپریم کورٹ میں میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی کا نوٹس لیتے ہوئے میڈیا مالکان سے وجوہات طلب کرلی تھیں۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا تھا کہ میڈیا مالکان، ورکرزکے کفیل بنیں مالک نہ بنیں اور صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو 10 دن کے اندر تنخواہ ادا کی جائے۔

انھوں نے کہا تھا کہ میڈیا مالکان تحریری جواب جمع کرائیں کہ تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کیوں کرتے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jun 10, 2018 06:54pm
پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں برسوں سے کام کرنے والے والے مگر کاغذات میں تاحال کنٹریکٹ ملازمین کے بارے میں بھی بات کی جائے۔ ان کا بھی بہت ہی زیادہ برا حال ہے، سب سے برا تو یہ کہ کوئی بھی جاب سیکیورٹی نہیں، مالکان نے جب چاہا باہر پھینک دیا، ویج بورڈ کس بلا کا نام ہے کچھ معلوم نہیں، برسوں سے کام کرنے والوں کو مستقل کیوں نہیں کیا جاتا، گیارہ ماہ بعد کنٹریکٹ کی تجدید کے نام پر احسان کردیا جاتا ہے، تنخوہواں میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاتا، انگریزی اخبار کے لیے کام کرنے والوں کو زیادہ تنخواہیں کیوں دی جاتی ہیں، آنے کی ٹائمنگ تو ہوتی ہیں مگر جانے کی نہیں، یونین کا نام و نشان تک نہیں، ایکسکلوز خبر کے نام پر رپورٹرز کو۔۔۔، حالانکہ آج کل ہر کسی کے پاس موبائل موجود ہے جس سے کوئی خبر خاص خبر نہیں رہی۔۔ اسی طرح دیگر لوئر اسٹاف کو بھی حکومتی منظور شدہ تنخواہوں سے بھی کم تنخواہیں دی جاتی ہیں، صحافتی تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ صرف صحافی کی بات نہ کریں بلکہ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں کام کرنے والے تمام ملازمین کی بات کی جائے۔ سپریم کورٹ سے امید ہے کہ وہ صحافت اور صحافیوں کے مالی معاملات کا جائزہ لیں۔