پولینڈ کے شہر کاٹوویسا میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچ چکی۔ اگر اس کانفرنس کا خلاصہ ہم بیان کرنا چاہیں تو وہ صرف 3 لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے ’نشستن، گفتن، برخاستن۔۔۔‘ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔
کثیر سرمائے سے منعقد کی جانے والی اس عالمی سطح کی کانفرنس میں 200 ممالک کے اعلیٰ وفود موجود تھے اور دنیا بہت پُرامید تھی کہ یقیناً کچھ ایسے ٹھوس فیصلے سامنے آسکیں گے جو دنیا کے ماحول اور آب و ہوا کی تبدیلی کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں گے لیکن افسوس کہ دنیا کے ہاتھ کچھ نہ آیا سوائے ایک اور وعدے کے۔
2015ء میں کیے جانے والے پیرس معاہدے کو آگے بڑھاتے ہوئے توقع کی جارہی تھی کہ ایک رول بک (Rule Book) پر اتفاق کرلیا جائے گا جس کے تحت یہ واضح ہوجائے گا کہ کن ممالک کی کیا ذمہ داریاں ہوں گی۔ غریب متاثرہ ممالک کی مدد کیسے کی جائے گی اور ذمہ دار ممالک اپنا کیا کس طرح بھگتیں گے مگر ایسا کچھ بھی طے ہو نہ سکا اور بات 2020ء تک ٹل گئی۔
کانفرنس کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب سعودی عرب، کویت اور روس نے بین الحکومتی پینل برائے آب و ہوا میں تبدیلی (IPCC) کی رپورٹ مسترد کردی۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے سے منسلک سیکڑوں اداروں کے ہزاروں سائنسدانوں اور ماہرین نے شب و روز ایک کرکے تیار کی تھی۔