ہملٹن کہاں ہے؟ لاڑی بندر آج بھی اسے یاد کرتا ہے...
ہملٹن کہاں ہے؟ لاڑی بندر آج بھی اسے یاد کرتا ہے۔۔۔
مجھے آج تک، کوشش کرنے کے باوجود بھی ’کناروں‘ کی کہانی سمجھ میں نہیں آئی اور مجھے اس گُتھی کا بھی کہیں سرا نہیں ملا کہ، دُکھ اور سُکھ، اشک و مسکان کی ایک دوسرے سے اتنی گہری رشتہ داری کیوں ہے؟
کنارے جھیلوں کے ہوں، دریاؤں کے یا سمندر کے، ان کے دامن پر بہتی لہریں کبھی خوشحالی کا خواب سچ کرتی ہیں تو کبھی بدحالی کی بدعا قبول کرلیتی ہیں۔
یہی لہریں ویرانوں میں شہر آباد کرتی ہیں اور جب بے وفائی کرنے پر آئیں تو آباد شہر اور بستیاں بھی ویرانیوں اور بربادیوں میں بدل دیتی ہیں۔
ایسی ہی کچھ کیفیات سے لبریز آج کا ہمارا سفر ہے۔ یہ سفر 7 صدیوں پر محیط ہے۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں ایک کٹھن سفر پر نکلنا ہے، کیونکہ وہاں تک سیدھے راستے نہیں جاتے۔ مگر یہ کتنا خوشگوار احساس ہے کہ ہم 700 برس کے بیتے دنوں کے بیچوں بیچ سفر کریں گے۔
ابراہیم حیدری میں گزشتہ 2 دن سے مغربی ہوائیں چل رہی تھیں اور بیزار کرتی تھیں۔ یہ ہوائیں اپریل اور مئی میں تو بھلی لگتی ہیں مگر جنوری میں تو جیسے آپ کے اندر چڑچڑا پن پیدا کردیتی ہیں۔
آج جب ابراہیم حیدری سے ‘ریڑھی بستی‘ کے لیے نکلا تو صبح کے 6 بجے تھے اور شمال کی تیز ہوائیں ابراہیم حیدری کی گلیوں میں طمطراق سے چل رہی تھیں۔ دکانیں بند تھیں البتہ مٹھائی اور چائے کی دکانیں کُھلی تھیں۔ آپ جیسے ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ کی طرف چلنا شروع کرتے ہیں، سمندر کے کنارے بھی آپ کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ ہلکی دھند کی چادر ہے جو چہارسو پھیلی ہوئی ہے۔ چیلیں ہیں جو خوراک کی تلاش کے لیے دھند آلود آسمان پر اُڑنے لگی ہیں اور پھر ریڑھی بستی کے گھاس پھوس اور لکڑی سے بنے گھر ہیں جن میں سے دھواں اُٹھتا ہے، کہ آگ کا گرم الاؤ سردی میں حدت دیتا جس میں تسکین چھپی ہوتی ہے۔