’دعا ہے گھر کی باری کبھی نہ آئے‘
یہ کچھ دن پہلے کی بات ہے جب سفر کے دوران شدید ٹریفک جام نے بُرا حال کردیا۔ کم و بیش سیکڑوں گاڑیاں، بسیں، ویگنیں، چھوٹی بڑی کاریں، رکشے، چنگ چی، موٹرسائیکل، ریڑھی تانگے، غرض ہر رنگ کی سواری اور ہر رنگ کا سوار یہاں موجود تھا۔ مجھے لگا کہ یہ ٹریفک جام نہیں، ’تمثیل دنیا‘ ہے، زندگی ہے۔
ہم اپنے چھوٹے سے علاقے کے جانے پہچانے چہرے ہیں، جنہیں دیکھ کر لوگ رکتے ہیں، سلام کرتے ہیں۔ سواری والے احتراماً رُک کر راستہ دیتے ہیں۔ بچوں کے اسکول جانا ہو تو ڈاکٹر ہونے کے سبب عزت ملتی ہے۔ ڈاکٹر ہونے کے سبب مارکیٹ جانا مسئلہ بننے لگا تھا کہ دکاندار یا تو دام نہ لینے پر مصر ہوتے یا جہاں چیز مہنگی لگتی وہاں بحث کرنے میں پہچان کا عنصر آڑے آتا۔ غرض ذاتی اہمیت اور دنیاوی پہچان کا ایک خناس ذہن میں لاشعوری طور پر جڑ پکڑنے لگا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ ہم وی آئی پی ہیں، ایک جہان ہمیں جانتا ہے۔ گویا یہ دنیا تو بس ہم سے ہی ہے اور ہمارے لیے ہی قائم ہے۔