سانحہ پشاور: 144 دردناک داستانوں کی کہانی

“اسکول کے فرش پر 50 بچوں کی لاشیں پڑی ہیں۔"

"یہ ممکن نہیں ہے، ایسا نہیں ہوسکتا۔"

"میرے سکیورٹی ذریعے کا کہنا ہے کہ اس نے خود دیکھی ہیں۔"

یہ وہ گفتگو ہے جو میں کبھی بھی نہیں بھول سکتی۔

16 دسمبر 2014 کی صبح اب دوپہر میں بدل رہی تھی، اور میں پشاور میں ڈان نیوز کے اس وقت کے بیورو چیف سے فون پر بات کر رہی تھی۔ دہشتگردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر دیا تھا، اور حملہ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔

نیوز روم میں جذبات اپنے عروج پر تھے۔ ہم لوگوں نے 20 شہادتیں رپورٹ کی ہی تھیں کہ اگلے لمحے تعداد 80 تک پہنچنے کی اطلاع ملی۔ اس خونی دن کے اختتام تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 144 تک پہنچ چکی تھی۔ جن میں سے زیادہ تر بچے تھے۔

مگر اس خوفناک واقعے کے باوجود پاکستان بھر کے نیوز رومز نے اپنا کام ویسے ہی کیا جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتے ہیں: شہادتوں اور حملہ آوروں کی تعداد اور اسکول کو خالی کروانے میں لگنے والا وقت بتانا۔

ٹی وی پر نظر آنے والے پشاور کے نمائندوں نے اپنا کام انتہائی عملیت پسندی کے ساتھ کیا۔ جب میں نے ہمارے نیوز روم میں موجود نوجوان سب ایڈیٹرز کو لائیو اپڈیٹس پر کام کرتے دیکھا، تو ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔

پاکستان میں صحافی ہونا آپ کو بہت جلد سخت بنا دیتا ہے۔ بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور مشتعل ہجوم کے ہاتھوں دردناک اموات پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ صحافیوں کی تو کیا بات کرنا، اب تو عام ناظرین بھی ان پرتشدد واقعات پر اتنے جذباتی نہیں ہوتے۔

احمد نامی بچہ انتہائی خوش آواز تھا۔
احمد نامی بچہ انتہائی خوش آواز تھا۔

مگر یہ واقعہ بالکل مختلف تھا؛ یہ بربریت کی وہ بدترین مثال تھی جسے پاکستان کی خونی تاریخ کا صرف ایک اور واقعہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ان بچوں کو کس چیز سے خوشی ملتی تھی؟ یہ بچے بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے تھے؟ یہ واقعہ ایسا تھا کہ ہم صرف تعداد بتانے کے بجائے ان افراد کی زندگی کی کہانیاں بتانے پر مجبور ہوئے۔

اور اس طرح ڈان نیوز کی جانب سے آرمی پبلک اسکول کی یادگار کے پراجیکٹ "144 داستانیں" کے خیال نے جنم لیا۔

رپورٹنگ کے دوران دلوں کا ٹوٹنا

سب سے دہشت ناک کام نمائندوں کا تھا۔ دکھ کے مارے والدین، شریکِ حیات اور بچوں کے بہن بھائیوں اور ان کے اساتذہ سے بات کرنے کے لیے بہت زیادہ قوت جمع کرنی پڑی۔ یہ ایک دل توڑ دینے والا تجربہ تھا۔

چھ ماہ کے دوران ہمارے نمائندوں نے 119 طلباء، 12 اساتذہ اور اسٹاف کے 13 دیگر ممبران کے رشتے داروں سے بات چیت کی۔

دو اساتذہ فوجی افسران کی اہلیہ تھیں اور 40 بچے حاضرِ سروس اور ریٹائر فوجی افسران کے بچے تھے، لیکن باقی 102 شہداء کا فوج سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ورثاء سے ان ملاقاتوں نے نمائندوں کو توڑ کر رکھ دیا۔

نمائندوں نے کہا کہ "جب ہم شہداء کے ورثاء سے بات کرنے کے لیے بیٹھے، تو ایسا لگا کہ 16 دسمبر 2014 ایک بار پھر آگیا ہے۔"

اس واقعے کو کئی ماہ گزرنے کے باوجود ان گھروں میں جانا اور لواحقین سے ملاقاتیں کرنا سانحے کی یاد تازہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ پراجیکٹ کے اختتام پر مجھے کی گئی ایک ای میل میں نمائندوں عبدالحکیم اور حسن فرحان طارق نے جذباتی اتھل پتھل یوں بیان کی:

"خاندانوں کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا۔ کئی بار ہم ان سے کوئی سوال پوچھتے، اور والدین خاموش ہوجاتے۔ ہم جتنے دھیمے انداز میں دوبارہ پوچھ سکتے، پوچھتے، مگر ایسا لگتا کہ وہ بس ابھی ٹوٹ جائیں گے۔ اکثر اوقات والد بات کر رہے ہوتے اور والدہ روتی جاتیں۔ ہمیں نہایت صبر سے کام لینا پڑتا، کیونکہ آخر انہوں نے اپنی زندگی کی روشنی کھو دی تھی۔"

کئی دفعہ ہمارے نمائندوں کے لیے اپنے جذبات پر قابو رکھ پانا مشکل ہوجاتا اور وہ بھی بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے۔

تمام شہداء میں خولہ کم عمر ترین اور واحد لڑکی تھیں۔
تمام شہداء میں خولہ کم عمر ترین اور واحد لڑکی تھیں۔

"جب بھی ہم ان والدین سے ملتے جنہوں نے اپنے دو بچے یا اپنا اکلوتا بچہ کھویا ہوتا، تو ہم بھی جذبات سے بھر جاتے اور اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ پاتے۔ ہم بھی ان کے ساتھ رونے لگتے۔

"ایک بار تو ہمیں بھی ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہم پاگل ہوجائیں گے۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے اذیت ناک تجربہ تھا۔"

اس کے بعد کراچی میں صحافیوں کی ایک ٹیم نے تمام بچوں کی کہانیوں کی اشاعت سے پہلے ایڈیٹنگ کی۔ بچوں کی کہانیاں جس طرح سنائے جانے کا حق تھا، ویسے سنانے کے لیے ان کہانیوں کو تیار کرنا ایک بہت مشکل اور نفسیاتی طور پر دردناک مرحلہ تھا۔

6 سالہ خولہ بی بی، جس نے اپنے اسکول کے پہلے دن ہی اپنی جان گنوا دی؛ وہ لڑکا جسے اس کے والدین نے اس کی سالگرہ کے دن دفن کیا؛ اور وہ نوجوان جسے اپنی ماں کے بنائے ہوئے کھانے بہت پسند تھے؛ ہر کوئی اپنے ماں باپ کے لیے بہت خاص اور ایک کامل بچہ تھا۔

تصاویر دیکھنا اس سے بھی زیادہ مشکل کام تھا۔ ٹرافیوں کے ساتھ مسکراتے بچے، اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ کھیلتے بچے، فتح کا نشان بناتے بچے، زندگی سے بھرپور یہ تصاویر دیکھ کر بچوں کے زندہ ہونے کا گمان ہوتا، مگر اگلے ہی لمحے یہ تلخ حقیقت سر اٹھاتی کہ مسکراتی تصاویر والے یہ بچے بدترین بربریت کا شکار ہو کر اب منوں مٹی تلے پہنچ چکے ہیں۔

کئی بار میں نے ایڈیٹنگ ٹیم کے ممبران کو افسردگی کے عالم میں سر جھٹکتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہ بہت ناانصافی ہے۔

مگر آخر یہ پراجیکٹ مکمل ہوا۔ قارئین اسکول سے محبت کرنے والی خولہ اور باکمال آرٹسٹ ایمل کی کہانی پر روئے تو انہوں نے فہد کی دلیری کی داد بھی دی جس نے اپنے دوستوں کو باہر نکلنے میں مدد دی، اور آخرکار دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بنا — یہ 144 زندگیاں کتنے امکانات سے بھرپور تھیں، یہ پیارے بچے اپنی زندگیوں میں کیا کچھ مزید کر سکتے تھے، اس بارے میں اب صرف قیاس آرائیاں اور افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

ان 144 کہانیوں کے ذریعے ہم آرمی پبلک اسکول پشاور میں اپنی جانیں دینے والے بچوں کی والدہ، والد اور بہن بھائیوں سے ملے۔

ہم روئے اور ہم نے ان بچوں کے لیے دعا کی۔

اور ہم نے قسم کھائی کہ ہم ان بچوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔


شہدائے آرمی پبلک اسکول کی "144 داستانیں" یہاں ملاحظہ کیجیے۔


عاتکہ رحمان ڈان ڈاٹ کام کی نیوز ایڈیٹر ہیں۔

وہ ٹوئٹر پر AtikaRehman@ کے نام سے لکھتی ہیں۔