اس صورتحال میں ٹیم منجمنٹ کو ہر میچ سے قبل بروقت اور درست فیصلہ کرنا ہوگا۔ جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے حالیہ ایک روزہ مقابلوں میں باؤلنگ بھی عدم تسلسل کا شکار رہی۔ سوائے نوجوان شاہین آفریدی کے کوئی بھی باؤلر تسلسل کے ساتھ کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ عثمان شنواری اگر ایک میچ میں اچھی باؤلنگ کرتے ہیں تو اس سے اگلے میں نہایت ناقص کارکردگی پیش کرتے ہیں۔ ان کو نو بال کروانے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ جس طرح کے مسائل عثمان شنواری کو درپیش ہیں، ویسے ہی مسائل کی وجہ سے وہاب ریاض ٹیم میں اپنی جگہ کھوچکے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں کیا عثمان شنواری ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھ سکیں گے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
پاکستان کو عالمی کپ سے قبل ایک یا 2 آل راؤنڈرز کی بھی ضرورت ہے جو بوقت ضرورت طویل اننگز بھی کھیل سکیں اور اختتامی اوورز میں تیز رفتار بیٹنگ بھی کرسکیں۔ اس تناظر میں ڈومیسٹک کرکٹ میں موجود کھلاڑی عامر یامین کو موقع دیا جائے تو ٹیم کے لیے ایک اچھا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ حسن علی میں بھی ٹیلنٹ موجود ہے اور ٹیم منجمنٹ ان کو بھی عالمی کپ سے پہلے ہونے والے مقابلوں میں تسلسل کے ساتھ چھٹے یا ساتویں نمبر پر کھلا کر ایک آل راؤنڈر کے طور پر تیار کرسکتی ہے۔
عالمی کپ سے قبل، پاکستان سپر لیگ کا چوتھا ایڈیشن منعقد ہوگا جس کے بعد پاکستان کو آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف 5، 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلنی ہے۔ ان مقابلوں میں ٹیم منجمنٹ کو تمام ممکنہ کھلاڑیوں کی کارکردگی جانچنے کا موقع ملے گا اور میگا ایونٹ کے لیے درست ٹیم کا انتخاب کرنے میں یہ میچز کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
کرکٹ کے ایک معروف کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے اپنے تجربے کی بنیاد پر پاکستان کی ٹیم کا انتخاب کیا ہے۔
ہرشا بھوگلے کی منتخب کردہ اس ٹیم میں اور پاکستان کی حتمی ٹیم میں شاید ایک یا 2 کھلاڑیوں کا ہی فرق ہو۔
دنیا کی تمام کرکٹ ٹیمیں عالمی کپ کے لیے اپنی تیاریوں کو حتمی شکل دے چکی ہیں۔ اب پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھی چاہیے کہ وہ پوری توجہ کے ساتھ عالمی کپ کی تیاری کرے تاکہ کھلاڑی پورے فوکس کے ساتھ اس عالمی کپ میں شرکت کریں اور اپنی کارکردگی سے ملک کا نام روشن کریں۔