Dawn News Television

شائع 19 فروری 2019 09:48am

چین کا ناقابل یقین اور دنگ کردینے والا منصوبہ

چین ایک ایسے ملک کے طور پر ابھر رہا ہے جس کے منصوبے ناقابل یقین ہوتے جارہے ہیں لیکن وہ انہیں حقیقت کا روپ دینے میں کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اور چین اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سورج کا سہارا لینے کا ارادہ رکھتا ہے مگر اس میں انفرادیت یہ ہے کہ وہ بالائی خلا میں پاور اسٹیشن تعمیر کرنے جارہا ہے۔

یہ بجلی گھر یا پاور اسٹیشن زمین کے مدار میں ہوگا اور سورج کی شعاعوں کو بجلی میں بدل کر یہ توانائی واپس زمین پر بیم کی شکل منتقل کرے گا۔

چین کو توقع ہے کہ اگر چینی اسپیس ایجنسی اس کے لیے درکار ٹیکنالوجی تیار کرنے میں کامیاب ہوئی تو اس منصوبے کو 2030 تک مکمل کرلیا جائے گا اور اس کی بدولت ہر وقت بجلی کی سپلائی جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔

اس ٹیکنالوجی کی آزمائش 2021 سے 2025 کے درمیان کیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد ایک میگاواٹ سولر پاور اسٹیشن 2030 تک خلا میں بھیجے جائے گا۔

اس منصوبے کے تحت مستقبل میں زیادہ بڑے اور موثر پاور اسٹیشنز کو بھی خلا میں منتقل کیا جائے گا۔

اس حوالے سے تجرباتی بیس کو چین کے شہر چونگ چنگ میں تیار کرلیا گیا ہے۔

چین کا یہ مجوزہ پاور اسٹیشن 36 ہزار کلومیٹر بلندی پر زمین کی مدار میں موجود ہوگا، جس سے پہلے چینی سائنسدان چھوٹے پاور اسٹیشن تعمیر کرکے خلا میں بھیجیں گے۔

چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے 99 فیصد تک بجلی کی فراہمی وقت پر ہوگی جبکہ یہ ماحول دوست بھی ہوگی۔

اس منصوبے کے تحت سولر انرجی کو خلا میں پہلے بجلی میں منتقل کیا جائے گا جس کے بعد مائیکرو ویو یا لیزر کی شکل میں زمین پر بیم کیا جائے گا جہاں گرڈ اسٹیشن اسے موصول کرے گا۔

سائنس فکشن ناول جیسا یہ منصوبہ نیا نہیں، جاپان اس بارے میں ایک دہائی قبل بات کرچکا ہے جبکہ امریکا میں بھی گزشتہ سال اس طرح کے منصوبے پر بات کی گئی۔

چین اس وقت خلائی منصوبوں پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ فنڈز خرچ کرنے والا ملک ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے 8 ارب ڈالرز سالانہ بجٹ مختص کیا ہوا ہے تاکہ اس معاملے میں روس اور امریکا کو پیچھے چھوڑا جاسکے۔

چین دنیا کا پہلا ملک بننا چاہتا ہے جو چاند پر ایک بیس قائم کرنے میں کامیاب ہوگا اور اس کے لیے وہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد لے گا۔

Read Comments