کراچی، فرئیر، سندھی زبان اور برصغیر کی پہلی ڈاک ٹکٹ
کراچی، فرئیر، سندھی زبان اور برصغیر کی پہلی ڈاک ٹکٹ
اس دھرتی پر نہ جانے کتنے وجود تھے اور ہیں۔ ہر ایک نے زندگی کی پگڈنڈی پکڑی اور اپنا سفر ختم کرکے عالم ارواح کی راہ لی۔ ہر وجود کے سرشت کی اپنی اپنی کائنات تھی۔ اس کائنات کے اپنے موسم اور اپنے آسمان تھے۔ بونے کے لیے ان کے پاس عملوں کی زمین تھی۔ بویا ہر کسی نے، کیونکہ بونا ہی پڑتا ہے اس لیے تو زمین پر دھکیل دیے گئے۔
پھر ان پوشیدہ تیز آنکھوں کا کیا کہ جو دیکھتی ہیں وہ ہی بیان کردیتی ہیں۔ وقت کے آسمان پر، اس تحریر کو ایک دنیا پڑھ سکتی ہے۔ انسان دنیا میں 2 ہی فصلیں بو سکتا ہے۔ اچھی یا بُری، تلخ یا شیریں، مثبت یا منفی اور وقت کی پوشیدہ آنکھوں کی تحریروں کو پڑھ کر ہم یہ کہتے ہیں کہ: یہ اچھا تھا یہ بُرا تھا یا یہ عمل مثبت تھا یا منفی تھا۔
تو چلیے نکل پڑتے ہیں کراچی کی ان گلیوں میں جو ابھی تک تاریخ کے صفحات میں بہتی ہیں۔ ڈھول اب بھی بجتے ہیں، کبھی کبھار توپ بھی چل جاتی ہے کہ ایک پل کا دوسرے پل سے رشتہ ہوتا ہے۔
17 فروری یا 24 مارچ 1843ء ہو، اگر کیلنڈر دیکھیں تو دونوں جمعہ کے دن تھے۔ چارلس نیپئر جس کی سرشت میں بارود کی بُو مہکتی تھی، اس کے اندر بسی وحشت کو اس دن سکون ملا جب ’میانی‘ اور ’دبی‘ کے جنگ کے میدان خون سے سُرخ ہوچکے۔ سندھ کے حاکموں کو اس نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔