ہرمن کہن (Herman Kahn) کے قول کو مدِنظر رکھیں 'جو کبھی پہلے سوچا نہ گیا' ہو کرنے کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب جنگ کی سختیوں کو بھلا دیا جاتا ہے اور وہ لوگ اپنے درمیان جنگ کے بارے میں بات کرتے ہیں جنہوں نے کبھی اپنے پیاروں کو جنگ میں مرتے نہ دیکھا ہو.
1950 کی دہائی میں خطرہ ٹالنے کی دفاعی حکمت عملی کے ابتدائی دنوں میں امریکا کے جوہری نظریے کو کچھ عرصے کے لیے حد سے زیادہ عقلمند سویلین ٹیکنوکریٹس کے گروپ نے ایک طرف رکھ دیا اور خود کو طاقت کے طریقہ کار اور جنگ لڑنے کے نظریے پر مباحثے پر مصروف کرکے فوج کو بے انتہا پریشان کردیا۔ انہیں ان دنوں وہز کڈز (whiz kids) کہا جاتا تھا، اور جب کینیڈی نے ان کی ایک بڑی تعداد کو اپنی کابینہ میں شامل کیا تو انہوں نے انتظامیہ کو ویتنام کے اندر ایک تباہ کن جنگ کی طرف مائل کردیا۔ انہی میں سے ایک تھے روبرٹ مک نمارا، اور انہوں نے اس جنگ اور ان وہز کڈز پر گہرے تجزیے کے ساتھ ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ براہ کرم اسے پڑھیے۔
یہاں یہ مطلب نہیں کہ خارجہ پالیسی یا خطرے کا اندازے لگانے کے حوالے سے ہونے والی گفتگو میں سویلین آوازوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن پاکستان جس طرح امن اور تحمل پر زور دیتے ہوئے بیانات جاری کر رہا ہے اور جس طرح جنگی صورتحال کے خطرات اور صورتحال کے بارے میں خبردار کررہا ہے کہ کس طرح یہ پوری صورتحال دونوں ملکوں کی قیادت کے قابو سے باہر نکل جانے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر ردِعمل کی تیاری میں معقول حد تک فوج ہی شامل ہوتی ہے۔
فوجی اہلکار جنگ کو سمجھتے ہیں جسے دھند، کنفیوزن، دکھ اور صدمہ پھیلانے والے ٹی وی اینکرز اور ٹوئیٹر پر موجود ہیش ٹیگ جنگجو سمجھ نہیں سکتے۔
دونوں ملکوں کی قیادت کو کیا کرنا چاہیے یہ بتانے والا میں کون ہوتا ہوں لیکن کم از کم وہ ساتھی جو اسی پیشے سے وابستہ ہیں جس پیشے سے میں وابستہ ہوں ان سے میں یہ بھرپور انداز میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ٹھنڈے ہوجائیں اور جنگ کا طبل بجانا بند کریں۔
یہ مضمون 28 فروری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔