صوفی، محنت کش اور شاعر: شاہ کریم بلڑی وارو
صوفی، محنت کش اور شاعر: شاہ کریم بلڑی وارو
حیات کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے ہر شخص اپنا زاویہ نظر رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے تمام لوگ ایک ہی مقام پر کھڑے ہوکر ہر چیز کو تو نہیں دیکھ سکتے چنانچہ زاویوں میں تبدیلی ناگزیر ہے اور یوں 2 مختلف جگہوں پر کھڑے اشخاص ایک ہی منظر کو 2 بالکل مختلف رخوں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے میں یکساں منظرنامہ دیکھنا تو ممکنات کے دائرے میں قطعی طور پر نہیں آسکتا۔ اس بات کو آسانی سے سمجھنے کے لیے ہم ‘6‘ اور ’9‘ کی مثال لے سکتے ہیں۔
ہر وجود کی اپنی کمزوریاں اور اپنا مدافعتی نظام ہے۔ جس کی چھاؤں میں وہ جیون جی کر گزارتا ہے اور بلاشبہ ہر ذی روح کے اندر ایک الگ کائنات بستی ہے۔ مگر ہم انسانوں کو اشرف المخلوقات کا درجہ اس لیے دیا گیا ہے کہ ہم مثبت اور منفی میں تمیز کرسکتے ہیں۔ ہمیں اندھیرے اور اجالے میں فرق کرنا آتا ہے اور ہم شادمانی اور غمی کا احساس بھی رکھتے ہیں۔
میں جب سجاول سے شاہ کریم کی درگاہ کے لیے نکلا تو راستے کے دونوں اطراف آبادی کم اور ویرانی زیادہ تھی۔ مارچ کا آخری ہفتہ تھا سو دھوپ تیز تھی اور آنکھوں کو چبھتی تھی۔ اس دوران جاڑے کی ٹھنڈک کی بہت یاد ستانے لگی تھی کہ ہر جانے والی چیز اچھی جو لگتی ہے۔
اس درگاہ پر جانے سے پہلے میں نے شاہ کریم کی عملی زندگی کے متعلق تحریر کی ہوئی کتاب ’بیان العارفین‘ کا مطالعہ کیا جو اس کے ایک معتقد ’محمد رضا بن عبدالواسع عرف میر دریائی‘ نے شاہ کریم کی رحلت کے 6 برس بعد یعنی 1628ء میں تحریر کی۔