مسئلے کے نصف حصے کو تو ’استحکام کی خاطر تکلیف‘ سے منسوب کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کا زیادہ تر تعلق حکومت کی جانب سے جادوئی معاشیات (voodoo economics) یا غیر حقیقت پسند اور کوتاہ اندیش نظر آنے والی اقتصادی پالیسی پر عمل اور اس غیر یقینی کی صورتحال سے ہے جس کو حکومت کی سستی کے باعث ہوا ملتی رہی ہے۔ اسی کے باعث مقامی سرمایہ کاری بھی کافی کم رہی۔ حکومت کی جانب سے ایسی اصلاحات لانے یا ایسی رعایت دیے جانے کے بہت ہی کم آثار نظر آتے ہیں جن کی مدد سے سرمایہ کاری کو فروغ مل سکے۔
ترقیاتی بجٹ میں بھاری کٹوتیاں بھی اقتصادی پیداوار میں سستی کا باعث رہی ہیں۔ افراطِ زر کی بلند شرح اور اس پر پست اقتصادی پیداوار کی وجہ سے حالات افراطی جمود (Stagflation) کی طرف جاسکتے ہیں جس کے سنگین نتائج بھی بھگتنے پڑسکتے ہیں۔
یقیناً دوست ممالک سے لیے گئے ادھار کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی نے ہمیں ڈیفالٹ ہونے سے تو بچا لیا ہے مگر چونکہ نئے قرضے چڑھتے رہیں گے اس لیے اس مشکل سے چھٹکارا قلیل مدتی ہے۔ وزیرِ خزانہ کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونے کے دعوے کے باوجود بھی موجودہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سب سے بڑا مسئلہ ہی رہے گا۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ 100 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرچکا ہے جبکہ اس میں مزید اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
اس سے بھی زیادہ پریشان کن مسئلہ اس سست و کاہل معیشت اور آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث بد سے بدتر ہوتی بے روزگاری کا مسئلہ ہے۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کی جانب سے 50 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ پورا ہوتا بہت ہی کٹھن نظر آتا ہے۔ تاہم آبی وسائل کے وفاقی وزیر فیصل واؤڈا نے اعلان کیا کہ اگلے چند ہفتوں میں پاکستان میں اتنی زیادہ ملازمتوں کے مواقع موجود ہوں گے کہ یہاں نوکریوں کے مقابلے میں لوگ کم پڑجائیں گے۔
شاید وہ اپنے وزیرِاعظم کے اس بیان سے کافی متاثر ہوچکے ہیں کہ پاکستان تیل اور گیس کے بڑے ذخائر دریافت کرنے کے دہانے پر ہے جس کے بعد ہمارا ملک تیل برآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک بن جائے گا اور یوں اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ موٹر سائیکل دوڑانے اور اسپورٹس گاڑیوں کی کلیکشن کے شوقین یہ وزیر ستم ظریفانہ طور پر اس غیر حقیقی اور خیالی جہان کے ’لاپرواہ عملے‘ کا حصہ ہیں جس میں رہ کر پی ٹی آئی کام کرتی ہے۔
یہ مضمون 10 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔