اسانج کی گرفتاری اور ان کی ممکنہ حوالگی پریس کی آزادی کے لیے کس قدر معنی خیز ہے؟
پہلی بات، یاد رہے کہ اسانج ایک آسٹریلین ہیں (ان کی ایکواڈور کی شہریت منسوخ کی جاچکی ہے) نہ کہ امریکی شہری ہیں۔ اگر اسانج کو امریکا کے حوالے کردیا جاتا ہے تو یہ عمل دنیا بھر کے صحافیوں اور کارکنوں کے خلاف ایک سنیگین مثال قائم کرنے برابر ہوگا۔ تصور کریں کہ اگر سعودی عرب میں موجود ایک پاکستانی صحافی کو امریکا کے حوالے کردیا جاتا ہے تو کیا پاکستان کے عوام اس اقدام کی حمایت کریں گے؟ یا سوچیں اگر برطانیہ میں بیٹھ کر روسی حکومت کے خلاف دستاویزات شائع کرنے والے صحافی کو روس کے حوالے کردیا جائے؟ تو کیا برطانیہ اور امریکا میں موجود رپورٹر حضرات اس عمل کی حمایت کریں گے؟ جواب ہے نہیں۔ مگر اسانج کی ممکنہ حوالگی اس قسم کی سیاسی چالوں کے لیے ایک نئی مثال قائم کرنے کے مترادف ہے.
دوسری بات، اسانج ایک صحافی (چند انہیں ایک کارکن کی حیثیت بھی دیتے ہیں) اور ناشر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل امریکا نے اسپیونیج ایکٹ (Espionage act) کے تحت ذرائع اور غلط کاموں کی نشاندہی کرنے والوں پر فرد جرم عائد کیا اور اب یہ ملک ایک صحافی پر فرد جرم عائد کرنا چاہتا ہے۔ اگر ناشرین اور صحافیوں پر فرد جرم عائد ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صحافیوں اور ایڈیٹر صاحبان کو اپنا کام کرنے پر ملزم ٹھہرایا جاسکتا ہے، جو ایک فعال جمہوریت کی روح کو خطرے میں ڈالنے کے برابر ہے۔
تیسری بات، اسانج اور میننگ پر عراق میں امریکی جنگی جرائم دنیا کے سامنے لانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس کام میں تو انہیں مدد فراہم کی جانی چاہیے تھی۔ نوم چوسکی نے اسانج کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ’نہ تو ہیرو ہیں اور نہ شیطان، بلکہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اپنی سِوک ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔‘
جولین اسانج کے کام میں رکاوٹ بننے پر کیا حکام سے حساب کتاب نہیں لینا چاہیے؟
یہ مضمون 14 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔