چنانچہ پاکستان کے صدور نے جتنا غیر معمولی نقصان ریاست کو پہچایا ہے اتنا تو تمام پارلیمانی لیڈران نے مل کر بھی نہیں پہنچایا ہوگا۔
صدارتی اور پارلیمانی نظام میں سے ایک کا انتخاب اس بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کون سا نظام نظریاتی اعتبار سے دوسرے سے اعلیٰ ہے۔ ہوشمندی اور فہم عامہ ایک ایسے نظام کا تقاضا کرتا ہے کہ جس سے عوام آشنا ہو۔
ایوب خان اور ضیاء الحق دونوں نے ایک ایسے نظام کی حمایت کی جو بظاہر عوام کی اعلیٰ ذہانت یا نفسیات سے مطابقت رکھنے والا ہو۔ اگرچہ پاکستانی عوام نے ایک سے زائد بار آمریتی حکومتوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے، لیکن تاریخ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے کہ جو یہ ظاہر کرے کہ انہوں نے آزادی پر غلامی کو ترجیح دی۔ دوسری طرف انہوں نے اپنی جدوجہد اور قربانی سے ہر 9 یا پھر 10 سالہ طاقتور آمریت کو زیر کیا ہے۔
پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ جمہوریت، سیاسی جماعتوں اور خود سیاست کو ظالمانہ ظاہر کرنے کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ بینادی آزادیوں اور معقول رائے عامہ کی آوازوں کے لیے تو جیسے کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ لوگوں کے پاس اس بات سے ڈرنے کا درست سبب ہے کہ صدارتی نظام کی طرف لوٹنا نمائندہ گورننس کے ناپید ہونے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
چونکہ سیاست ممکنات کے فن کا نام ہے اس لیے تمام جمہوری گرہوں پر پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جس نظام کو عام شہریوں نے سمجھنا شروع کردیا ہے، اور وہ راہ نہیں لینی چاہیے جو ایک ایسے بہتر تصور کیے جانے والے نظام کو جاتی ہے کہ جسے سنبھالنے کے لیے ہمارے پاس مطلوبہ فرشتے ہی موجود نہیں ہیں۔
یہ مضمون 2 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔