Dawn News Television

اپ ڈیٹ 12 مئ 2019 10:20pm

’حکومت نئی آنے والی کمپنیوں کی قسمت کا فیصلہ مارکیٹ پر چھوڑ دے‘

پاکستان میں کام کرنے والی کچھ آٹو موبائل کمپنیاں چاہتی ہیں کہ موجودہ حکومت اب مزید کمپنیوں کو مارکیٹ میں شامل ہونے کا گرین سگنل نہ دے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ وہ نئے آنی والی کمپنیوں کی قسمت کا فیصلہ مارکیٹ پر ہی چھوڑ دے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آئندہ ایک دو برس میں گاڑیوں کے مختلف 3 لاکھ یونٹ تیار ہونے والے ہیں، جبکہ اس وقت مارکیٹ میں آٹو پالیسی 21-2016 کے تحت گرین فیلڈ سیگمنٹ اور 2 براؤن فیلڈ سیگمنٹ میں آنے کے لیے تیار ہیں جو تقریباً ایک ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کریں گی جس سے مارکیٹ میں عدم توازن پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ملک میں پہلے ہی تین بڑی جاپانی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، جبکہ اتنی بڑی سرمایہ کاری سے قلیل مدت میں نئی آنے والی کمپنیوں کے لیے مارکیٹ میں اپنا حصہ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

پاکستان میں مقامی سطح پر اسمبل ہونے والی گاڑیوں اور ان کے لیے آنے والی کمپنیوں کی وجہ سے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے۔

مزید پڑھیں: گاڑیوں کی فروخت میں کمی، آٹو شعبہ اپنی پیداوار کم کرنے پر مجبور

مذکورہ صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا لکی موٹرز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر آصف رضوی کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ پاکستان میں کمپنیوں کی تعداد 17 بہت زیادہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آٹو پالیسی 21-2016 سے دنیا کی مختلف کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری پر دلچسپی کا اظہار کیا اور اگر یہ تمام کمپنیاں اپنے منصوبے لگائیں تو آٹو موبائل سیکٹر میں پہلے سے موجود صلاحیت دگنی ہوجائے گی۔

انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ گاڑیوں کی پیداوار کی طلب سے زائد صلاحیت کو روکنے کے لیے اقدامات کرے ورنہ اس کے نتیجے میں کمپنیوں کے درمیان ایک طرح سے جنگ کا آغاز ہوجائے گا۔

آصف رضوی نے مزید کہا کہ حکومت آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی 21-2016 کے پالیسی فریم ورک میں توسیع نہ کرے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹویوٹا کی گاڑیوں کی قیمت میں 3 لاکھ روپے تک اضافہ

خیال رہے کہ سال 2018 کے دوران پاکستان 70 ہزار درآمد شدہ گاڑیوں سمیت کل 3 لاکھ 30 ہزار گاڑیاں فروخت کی گئی تھی، جو پاکستان جیسے ملک کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔

گزشتہ برس پاکستان میں فی ایک ہزار افراد میں گاڑیوں کی فروخت کی شرح صرف 1.65 فیصد تھی جبکہ عالمی سطح پر موجموعی طور پر یہ شرح 12.8 فیصد تھی۔

آصف رضوی نے کہا کہ عالمی تناسب کو پاکستان پر لاگو کیا جائے تو ملک میں 25 لاکھ 60 ہزار گاڑیاں فروخت ہونی چاہیے تھی لیکن اگر اوسط آمدن سے دیکھا جائے تو ملک میں 5 لاکھ گاڑیوں کی فروخت ہونی چاہیے لیکن ملک میں گاڑیوں کی فروخت کا یہ ہندسہ 3 لاکھ 20 ہزار پر ہے۔

انہوں نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 2006 کے دوران پاکستان میں 2 لاکھ 36 ہزار یونٹ فروخت ہوئے تھے، اگر 6 فیصد سالانہ اضافے کی بات کی جائے تو 2019 میں یہ تعداد 5 لاکھ ہونی چاہیے تھی۔

مزید پڑھیں: ہنڈائی نشاط موٹرز نے 2 نئی گاڑیاں متعارف کرادیں

خالد مشتاق موٹرز کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی او او) انور اقبال یہاں مختلف رائے رکھتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ملکی سیاسی صورتحال اور معاشی اشاریے بھی نئی کمپنیوں اور اضافی صلاحیت کی نظر میں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نئی کمپنیوں پر پابندی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مارکیٹ کو نئی کمپنیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔

ماسٹر موٹرز لمیٹڈ کے سی ای او دانیال ملک بھی انور اقبال سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نئی کمپنیوں سے نہ صرف صارفین کو فائدہ ہوگا بلکہ اس کی وجہ سے گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے درمیان مسابقت کو فروغ بھی ملے گا جس سے وہ گاڑیوں میں مزید خصوصیات فراہم کریں گے۔

Read Comments