Dawn News Television

شائع 26 جون 2019 12:10am

بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مددگار چائے

ذیابیطس دنیا میں تیزی سے عام ہوتا ہوا ایسا مرض ہے جسے خاموش قاتل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ ایک بیماری کئی امراض کا باعث بن سکتی ہے اور حیرت انگیز طور پر ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار 25 فیصد افراد کو اکثر اس کا شکار ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا۔

مگر اچھی بات یہ ہے کہ آپ اس مرض سے خود کو بچانے کے لیے کچن میں موجود ایک عام چیز سے مدد لے سکتے ہیں۔

اور وہ چیز ہے میتھی دانہ ، جو لگ بھگ ہر گھر میں موجود ہوتا ہے۔

میتھی دانہ صحت کے لیے متعدد فوائد کا حامل ہوتا ہے اور اس سے تیار کردہ پانی بلڈ شوگر لیول کو مستحکم رکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔

مختلف طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق میتھی دانے میں حل ہونے والے فائبر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو کہ خوراک ہضم ہونے اور کاربوہائیڈریٹس کے جذب ہونے کے عمل کو سست کرکے بلڈ شوگر لیول کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ دانے ذیابیطس ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو کے شکار افراد میں بلڈگلوکوز لیول کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ گلوکوز کی برداشت کو بہتر بناتے ہیں، یعنی ان دانوں سے ذیابیطس کے مریض کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ان دانوں کے استعمال کا ایک مخصوص طریقہ بلڈشوگر کو بڑحنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ انسولین کی سرگرمی بہتر بناتا ہے۔

میتھی دانہ جسم کو شکر اس طریقے سے استعمال کرنے میں بھی مدد دیتا ہے جیسا اسے استعمال کرنا چاہئے۔

اس مقصد کے لیے میتھی دانے کی چائے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

اس مقصد کے لیے ڈھائی گرام میتھی دانے کو مصالحے کوٹنے والے برتن میں ڈال کر کوٹ لیں اور پھر ایک کپ میں ڈال کر اسے 8 اونس گرم پانی سے بھرلیں۔

اس کے بعد چمچ سے اچھی طرح چائے کو ہلائیں اور کچھ ٹھنڈا ہونے کے بعد پی لیں۔

ایک اور طریقہ کار یہ ہے کہ ایک چائے کا چمچ میتھی دانے کا پاﺅڈر نیم گرم پانی میں ملائیں اور نہار منہ پی لیں۔

اس کے دیگر فوائد درج ذیل ہیں۔

جسمانی وزن کو کنٹرول کرنے میں مددگار

اس چائے کو نہار منہ پینا میٹابولزم کو تیز کرتا ہے جس سے اضافی جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔

قبض سے نجات

میتھی دانے کی چائے معدے کے مسائل کے حوالے سے بہت زیادہ موثر ہے جو تیزابیت کم کرتی ہے، جبکہ اس میں موجود فائبر آنتوں کے افعال کو بہتر کرکے قبض سے نجات دلانے میں مدد دیتا ہے، اسی طرح پیٹ پھولنے کے مسئلے پر قابو پانا بھی ممکن ہوجاتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

Read Comments