Dawn News Television

اپ ڈیٹ 26 جولائ 2019 04:14pm

صوبوں کی مخالفت کے باوجود حکومت گیس کے شعبے میں اصلاحات کیلئے تیار

اسلام آباد: حکومت نے گیس کے شعبے میں عالمی بینک کی حمایت یافتہ اصلاحات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا جو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ادھوری چھوڑ دی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مجوزہ اصلاحات میں گیس کی 2 بڑی کمپنیوں سوئی سدرن گیس پائپ لائنز (ایس این جی پی ایل) اور سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کو کم کم از 5 پبلک سیکٹر کمپنیوں میں تبدیل کرنا شامل تھا۔

بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے طرز پر ان 5 کمپنیوں میں ایک گیس ترسیل کمپنی اور 4 صوبائی تقسیم کار کمپنیاں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گیس سیکٹر میں اصلاحاتی عمل صوبائی مخالفت کی نذر

باخبر ذرائع نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی بینک کا وفد اسلام آباد میں موجود ہے اور اس سلسلے میں ان کی وزارت توانائی، گیس یوٹیلیٹیز، ریگولیٹ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ اور بلوچستان حکومت نے عالمی بینک کے اجلاس میں شریک ہونے سے گریز کیا تو وہیں پنجاب اور خیبرپختونخوا نے ان تجاویز پر اپنے تحفظات دہرائے۔

اس سے سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیوں کو ختم کرنے کا معاملہ بین الصوبائی تعاون کمیٹی اور مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھایا گیا لیکن وہاں اس پر خیبرپختونخوا اور سندھ کی جانب سے مخالفت سامنے آئی تھی۔

مجوزہ ترسیلی نظام سے تقسیم کار کمپنیوں اور دیگر نجی آپریٹرز کو مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمدات تک عام رسائی حاصل ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: صوبے بجلی اور گیس کی پیداوار، ترسیل اور فراہمی کی ذمہ داریاں سنبھالیں

یہ مجوزہ نظام گیس کا انتظام نہیں کرے گا بلکہ صرف گیس فراہم کرے گا اور اس فراہمی کی قیمت وصول کرے گا جس کا تعین ریگولیٹر کرے گا اور مقامی گیس صوبائی سطح پر تقسیم کار کمپنیوں جبکہ درآمد شدہ ایل این جی پرائیویٹ آپریٹرز کے ذریعے صارفین کو فراہم کی جائے گی۔

اس طرح مقامی گیس مقامی صارفین کو دستیابی کی بنیاد پر جبکہ درآمد شدہ گیس بڑی مقدار میں بڑے صارفین کو یقینی فراہمی کی بنیاد پر دی جائے گی۔

یہ نیا منصوبہ عالمی بینک کی مدد سے مشاورین نے ترتیب دیا ہے تاکہ نیٹ ورک میں موجود صارفین کو کہیں بھی گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: گیس اصلاحات گھریلو صارفین پر اثر انداز ہوں گی

وفاقی حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ نئے ڈھانچے میں صوبوں کے تحفظات شامل ہوں گے کہ ایل این جی کی فراہمی کی مکمل لاگت اس کے صارفین برداشت کریں جبکہ نان ایل این جی صارفین پر اس کا بوجھ نہ پڑے۔

دوسری جانب ایل این جی استعمال کرنے والے بڑے صارفین کے پاس اپنی مرضی کا سپلائر منتخب کرنے کی آزادی ہوگی، وفاق کو امید ہے کہ اس اقدام سے ایل این جی درآمد کنندگان میں مسابقت اور شفافیت پیدا ہوگی۔

Read Comments