گیس سیکٹر میں دو مختلف قیمتوں کے تعین پر حکومتی دعوؤں کے باوجود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں بننے والی گیس سیکٹر اصلاحات کی وجہ سے گھریلو صارفین کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

واضح رہے کہ وزارتِ پیٹرولیم اور قدرتی وسائل نے عالمی بینک کو گیس سیکٹر اصلاحات کے منصوبے میں شامل کیا تھا تاہم عالمی بینک نے 1992 میں متعارف کرائے گئے پاور سیکٹر کی تحلیل جیسی پیشکش کی تھی۔

ابھی تک وزیراعظم اس حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل اور اس کے ذیلی اداروں کو متحرک کرچکے ہیں تاکہ وہ گیس سیکٹر اصلاحات پر کام کر سکیں جسے اب تک کسی نہ کسی وجہ سے صوبوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔

ایک آزاد مشیر (کے پی ایم جی تاثیر ہادی اینڈ کو) نے ان اصلاحات کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ 10 برس کے اندر چار مختلف اصلاحات کے تحت گھریلو اور تجارتی صارفین کے لیے گیس کے نرخ میں 170 سے 330 فیصد تک اضافہ ہوجائے گا جبکہ 2026 میں قدرتی گیس کے نرخ درآمد شدہ آر ایل این جی سے کم ہی ہوں گے۔

مزید پڑھیں: آئل، گیس اور دیگر معدنی ذخائر کو کنٹرول کرنے کیلئے صوبے متحرک

سیاسی بنیادوں پر گیس نیٹ ورک کی بے قابو وسعت اور بغیر کسی اقتصادی استحکام کی حدود کی وجہ سے گیس صارفین اور سیاسی رہنما بڑے پیمانے پر سماجی، اقتصادی اور معاشی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں گیس کی فراہمی کا نظام اب دنیا کے وسیع ترین مربوط نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے جو 1 لاکھ 41 ہزار کلومیٹر پر محیط ہے۔

اس نیٹ ورک میں اب گیس کی طلب میں رسد سے دگنا اضافہ ہو گیا ہے جس نے گھریلو صارفین کو بے بس کردیا ہے اور صنعتیں بھی اپنا کام مکمل کرنے سے قاصر ہیں۔

مختلف مسابقی ایندھن کے درمیان گیس سیکٹر میں منصفانہ قیمتوں کے تعین کی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی درآمد کا مختصر راستہ اپنایا گیا جس کی وجہ سے گیس کی قیمتیں دگنی ہوگئیں اور مقامی صنعت پر اس کا اثر ہوا۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں صنعتوں کی پیداوار میں گذشتہ 15 برس میں 60 فیصد تک کمی آئی ہے جبکہ اسی عرصے میں گیس کی طلب میں 35 فیصد تک اضافہ ہوا۔

اس تجویز کردہ اصلاحاتی ماڈل نے سوئی نادرن گیس پائپ لائن (ایس این جی پی) لمیٹڈ اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) لمیٹڈ کو 5 حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: سی این جی قیمت مقرر کرنے کا اختیار مالکان کو دے دیا گیا

دو سوئی کمپنیوں پر مشتمل ٹرانسمیشن نیٹ ورک کو ’ٹرانسمیشن کمپنی (ٹرانسکو)‘ کا نام دیا جائے گا جس میں چار کمپنیوں کو شامل کیا جائے گا جن کے نام پنجاب ڈِسکو، سندھ ڈِسکو، خیبر پختونخوا ڈِسکو اور بلوچستان ڈِسکو تجویز کیے گئے۔

ایل این جی برآمد کو بڑھانے کے لیے دو آپریٹرز مقرر کیے جائیں گے جو ایل این جی درآمد بھی کر سکتے ہیں اور اسے پاکستان بھر میں کسی بھی صارف کو فروخت بھی کر سکتے ہیں۔

آزاد مشیر نے عالمی بینک کی چار تجاویز پر غور کیا جن میں پہلی تجویز یہ تھی کہ موجودہ انتظامات کو تحلیل نہ کرکے گیس کی فراہمی جاری رکھی جائے جس سے پورے ملک میں گیس کے نرخ آئندہ دس سالوں میں 595 یونٹ سے بڑھ کر 1,735 روپے فی یونٹ ہو جائیں گے جو موجودہ نرخ سے 190 فیصد زائد ہوں گے۔

دوسری تجویز میں ایک ٹرانسمیشن اور چار صوبائی کمپنیوں کا قیام ہے، اس صورت میں پنجاب میں گیس کے نرخ میں 174 فیصد اضافہ ہوگا جبکہ خیبرپختونخوا میں 300 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں: اوگرا سے مذاکرات ناکام، سی این جی کی فراہمی بند کرنے کا اعلان

تیسری تجویز میں ایک ٹرانسکو کمپنی اور دو جنوبی اور شمالی ڈسٹریبوشن کمپنیاں شامل ہیں، اس صورت میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 168 فیصد تک نرخ میں اضافہ ہوگا۔

چوتھی تجویز میں چار ٹرانسمیشن کمپنیاں ہیں جس کی مدد سے پنجاب میں 175 فیصد جبکہ خیبرپختونخوا میں 331 فیصد تک اضافہ ہوگا۔

آزاد مشیر کے مطابق ملک میں موجودہ نظام کے تحت برابری کی بنیاد پر صارفین سے گیس کی قیمت وصول کی جارہی ہے اور پہلے سے منظور شدہ نرخ میں رد و بدل ’ڈفرینشل مارجن ایڈجسٹمنٹ‘ کی شکل میں ایڈجسٹ کیا جارہا ہے تاہم گیس کی مکس فراہمی اور آر ایل این جی کے اثر و رسوخ کے بعد اوسط نرخ میں اضافہ ہوگا جس سے سب سے زیادہ متاثر گھریلو صارفین ہوں گے۔


یہ رپورٹ 18 ستمبر 2017 کو ڈان، بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Sep 19, 2017 06:09pm
کس نے کہا تھا کہ مہنگی ایل این جی منگوائی جائی۔