اس حوالے سے پی ٹی آئی بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنی ہے، اور اس کی وجہ اپنے بیانات اور رویے ہیں۔ مثلاً کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی سے وابستہ چند افراد ’سزا یافتہ‘ سیاسی رہنماؤں کی کوریج پر پابندی کو درست قرار دیتے نظر آئے تھے۔ مگر یہ بات بھی ایک الزام پر آ کر ختم ہوجاتی ہے کیونکہ جس طرح یہ جماعت آج برسرِاقتدار ہے اسی طرح کل جب مسلم لیگ (ن) حکمراں جماعت تھی ان دنوں چینلوں کی بندش قابلِ قبول طریقہ بن چکا تھا ٹھیک جس طرح پھر نیوز چینلوں کو بند کرنا عام ہوگیا۔
(ان بندشوں کا ایک نتیجہ یہ رہا ہے کہ پریس نے خودشناسی کا عمل ترک کردیا ہے، جو ایک بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ خیر اسے پھر کبھی موضوعِ بحث بنائیں گے۔ مگر اب یہ ضروری ہے کہ اس مسئلے سے متعلق ہونے والے کسی بھی مباحثے میں ہمارے اداریاتی معیارات پر بحث شامل ہو اور ساتھ ہی ساتھ ان وجوہات کو بھی موضوعِ بحث بنایا جائے جن کی بدولت پابندیوں کا نفاذ اس قدر سہل بن جاتا ہے۔)
مگر پی ٹی آئی کو اپنی ناتجربے کاری کے باعث اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ آزاد پریس کی مخالف جماعت کے طور پر اس نے جو داغ اپنے اوپر لگایا ہے اسے دھونا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنی آسانی سے اشتہارات میں کپڑے دھونے والا پاؤڈر دھو دیتا ہے، بلکہ یہ داغ ایک طویل عرصے تک ساتھ ساتھ رہے گا حتیٰ کہ جب یہ پارٹی اپنی غلطی پر پشیمان ہوگی اس کے بعد بھی یہ داغ جڑا ہی رہے گا۔
مسلم لیگ (ن) اپنے اوپر لگے سپریم کورٹ پر دھاوا بولنے کے داغ سے ابھی تک چھٹکارہ نہیں پاسکی ہے، جبکہ پیپلزپارٹی ان دنوں صادق سنجرانی اور اس سے منہ پھیر لینے کے اپنے فیصلوں پر وضاحت دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔
اسی طرح پریس کی آزادی پی ٹی آئی کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔ بلاشبہ، احتسابی مہم سے زیادہ یہ وہ داغ ثابت ہوگا جسے دھونے میں پارٹی کو دن رات ایک کرنے پڑجائیں گے۔
حزبِ اختلاف کے ساتھ سخت گیر سلوک کے باوجود کرپشن ایک ایسا معاملہ ہے جس پر ملک کے اندر اور باہر ایک حد تک شور مچتا ہے اور مغرب جو اس قسم کے الزامات پر ہمیشہ سے بے چین رہتا آیا ہے، وہاں بھی اس کے ایک آدھ تنقید کرنے والے ملیں گے۔ تاہم پریس پر پابندیاں اس طرح آسانی کے ساتھ قابلِ قبول قرار نہیں پاتیں۔ دورہ امریکا اس کی روشن مثال ہے۔
کیا پی ٹی آئی اس کے لیے تیار ہے؟
یہ مضمون 30 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔