تاہم یہ بات طے ہے کہ فوج کے ظالمانہ استعمال سے کشمیر کی جدوجہدِ آزادی نہیں دبے گی۔ مودی کو دہائیوں بعد اقتدار میں آنے والے سب سے تقسیم پسند اور سب سے طاقتور ترین بھارتی رہنما کے طور پر بیان کیا جاچکا ہے۔ ان کی جارحیت پسندی بھارت کے سیکولرازم کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ مودی کی جانب سے بھارت کو ایک ہندو راشٹریہ میں بدلنے کی کوشش نے اس ملک میں بہت زیادہ سیاسی تقسیم پیدا کردی ہے۔
سیکولرازم کے جس نظریے نے مختلف نسلوں اور مذاہب کو متحد کیے رکھا تھا، وہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کی منسوخی کے اقدام سے کمزور ہوا ہے۔
بھارتی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں پاکستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ، ہمیں حقِ خودارادیت کے لیے کشمیر کی جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ سیاسی اور اخلاقی مدد فراہم کرنی ہوگی اور ہر بین الاقوامی فورم پر بھارت کے سفاک عزائم کا انکشاف کرنا ہوگا۔ تاہم ہمیں 1990ء کی دہائی کی اس تباہ کن پالیسی اختیار کرنے سے خود کو باز رکھنا ہوگا جس نے کشمیر کی مقامی تحریک کو فائدہ پہنچانے کے بجائے الٹا نقصان پہنچایا تھا۔
کشمیری عوام نے یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت طاقت کا چاہے جتنا بھی استعمال کرلے مگر وہ ان کے عزم کو شکست نہیں دے سکتا۔ مودی کے حالیہ اقدام نے ان کے عزم کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ بھارتی اقدام نے یہ ثابت کیا ہے کہ کشمیر دنیا کا خطرناک ترین مقام ہے اور ایٹمی جنگ کا میدان بھی بن سکتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری اس معاملے کی سنجیدگی کو محسوس کرے۔
یہ مضمون 7 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔