لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

نریندر مودی کا مقبوضہ کشمیر کی تقسیم اور الحاق کے غرض سے اٹھایا گیا پُرخطر اور لاپرواہ اقدام نہ صرف خطے بلکہ خود بھارت کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

متنازع علاقے کو حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرکے بھارت نے اپنے اصل چہرے پر پڑے باریک پردے کو بھی دُور اٹھا کر پھینک دیا۔ دوسری طرف اس اقدام نے کشمیریوں کو بھارتی قبضے کے خلاف اس قدر متحد کردیا ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔

اس بھارتی اقدام سے خطے پر نہ صرف سنگین نتائج مرتب ہوں گے بلکہ اس تنازع کی چنگاری سے دُور دُور تک آگ پھیل سکتی ہے۔ نام نہاد الحاق کے آلہ کار کو آئین سے خارج کرکے ہندوستان نے کشمیر تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اب صورتحال دوبارہ قبل از 1948ء جیسی ہوچکی ہے۔ حالات اور وقت بھارت کے اس اقدام کو مزید متجسس بنادیتے ہیں۔

مودی نے بہت پہلے ہی بھارتی آئین سے 370 کی شق کے خاتمے کا وعدہ کر رکھا تھا جو کشمیر کو ایک نیم خودمختار حیثیت بخشتی ہے۔ تاہم جس جلدبازی اور طریقہ کار کے تحت یہ کام کیا گیا ہے اس سے یہ بات واضح طور پر محسوس ہورہی ہے کہ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں لوٹنے کے بعد ان کا غرور و تکبر بے حد بڑھ گیا ہے۔

بھارتی حزبِ اختلاف نے اسے بھارتی جمہوریت کی تاریخ کا ایک سیاہ باب پکارا ہے اور صدارتی حکم نامے کے ذریعے اٹھائے جانے والے اس اقدام کی قانونی حیثیت کو بھی چیلنج کیا ہے۔

اس اقدام کو اٹھانے سے چند دن قبل بھارت نے مقبوضہ خطے میں عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوجی اہلکار تعینات کردیے تھے۔ کشمیر میں لاک ڈاؤن اور کرفیو جیسی صورتحال تاحال برقرار ہے۔ حتیٰ کہ وہ کشمیری رہنما جو ماضی میں بھارت کی حمایت کرتے رہے ہیں انہیں بھی حراست میں لے لیا گیا۔ محبوبہ مفتی کے بیانات مودی کے ناپاک عزائم پر مقبوضہ کشمیر کے تمام کشمیریوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔

سابق وزیرِاعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’وہ صرف ہماری زمین پر قابض ہونا چاہتے ہیں اور اس مسلم اکثریتی ریاست کو دیگر ریاستوں جیسا بنانا چاہتے ہیں اور ہمیں اقلیت میں بدلنا اور مکمل طور پر بے اختیار بنانا چاہتے ہیں۔‘

ایک اور سابق وزیرِاعلیٰ عمر عبداللہ کے جذبات بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ مودی کے اس تکبرانہ اقدام کے نتیجے میں دہلی کشمیر میں اپنے تمام اتحادی کھو بیٹھا ہے۔

ظالمانہ فوج کے ذریعے مقبوضہ علاقے پر بھارت کے لیے اپنا قبضہ برقرار رکھنا اب مزید مشکل ہوجائے گا۔ کشمیری پہلے سے کمر کسے ہوئے ہیں اور کئی دہائیوں سے قابض افواج کے خلاف لڑتے آ رہے ہیں، اور اضافی فوجی اہلکاروں کی تعیناتی سے مزاحمت کو شکست نہیں دی جاسکے گی۔ پھر یہ متنازع علاقہ دنیا میں سب سے زیادہ فوج کی موجودگی والا خطہ بن چکا ہے۔

کشمیر کو ایک اور فلسطین بنانے کی سازش ہرگز کامیاب نہیں ہوگی۔ بھارت کے حالیہ اقدام نے اس جدوجہدِ آزادی میں مزید تحرک پیدا کیا ہے جس کی قیادت تشدد کے ماحول میں بڑی ہونے والی کشمیروں کی نوجوان نسل کر رہی ہے۔

بھارتی فوج کے ہاتھوں ہونے والے ظلم و تشدد اور انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں کشمیریوں کی جدوجہد کو کچلنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ اس وقت متنازع علاقے کی صورتحال اس قدر بدترین ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور بھارت کے حالیہ اقدام کے بعد حالات مزید تباہی کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔

بلاشبہ، حالیہ پیش رفت کے اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات پر براہِ راست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی پہلے ہی اسلام آباد کو اس بحران میں کھینچ چکی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر شیلنگ میں اضافہ ہوا ہے اور اطلاعات کے مطابق ہندوستان نے اس دوران کلسٹر بموں کا استعمال کیا جس نے عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔

اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ کشمیر میں بگڑتی صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے مودی ایل او سی پر حملوں میں اضافہ کردے۔ فروری میں بھارتی دراندازی کے باعث پیدا ہونے والی فوجی کشمکش ابھی پوری طرح تھمی ہی نہیں تھی کہ جنگ کے بادل دوبارہ منڈلانے لگے ہیں۔ یہ نہایت بدشگونی سے بھرپور صورتحال ہے۔ بھارتی اشتعال انگیزی کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔

اگرچہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے تناؤ پر تو بین الاقوامی سطح پر سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا لیکن کشمیر میں بھارت کی لگائی گئی آگ پر دنیا بڑی حد تک چپ سادھے بیٹھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے کی طرف بڑھنے سے قبل بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے پورا حساب کتاب کر رکھا تھا۔

نام نہاد ’انسدادِ دہشتگردی کی کارروائی‘ کی بنیاد پر بالاکوٹ میں بھارتی فضائی حملے پر امریکا سمیت مغربی طاقتوں کی چشم پوشی کے بعد لگتا ہے کہ ہندو قوم پرست حکومت کو کشمیری شناخت کی تباہی کے اپنے ایجنڈا پر عمل درآمد کے لیے حوصلہ ملا ہے۔ چند رپورٹس میں بھارتی سرکاری نمائندگان کو یہ کہتا بھی پایا گیا ہے کہ مودی حکومت نے مہینوں پہلے اپنے ارادوں پر واشنگٹن کا مؤقف جاننے کی کوشش کی تھی۔

رواں سال فروری میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے اپنے امریکی ہم منصب جان بولٹن کو ٹیلی فون کیا تھا اور انہیں مودی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی ’خصوصی حیثیت‘ ختم کرنے کے منصوبوں سے آگاہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جس کے چند ہفتوں بعد بھارتی وزیرِ خارجہ ایس۔ جے شنکر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کو اس معاملے پر بریفنگ بھی دے چکے تھے۔

اگرچہ امریکی سرکاری نمائندگان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اس قسم کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی، مگر اس کے باوجود بھارتی دعوٰی یہاں سنجیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پھر جب ہم گزشتہ ماہ عمران خان کے ساتھ گفتگو کے دوران کشمیر تنازع پر ٹرمپ کی جانب سے کی گئی ثالثی کی پیش کش کو یاد کرتے ہیں تو یہ معاملہ اور بھی متجسس بن جاتا ہے۔

کیا امریکی صدر اس وقت بھارتی منصوبوں سے آگاہ تھے؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ان کی ثالثی کو ایسے وقت میں کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے لے لیا جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی اضافی تعیناتی کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ بھارت کے شدید اقدام پر دنیا میں مکمل خاموشی پاکستان کے لیے باعثِ فکر ہونی چاہیے کیونکہ اس طرح بھارت کی جارحیت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

تاہم یہ بات طے ہے کہ فوج کے ظالمانہ استعمال سے کشمیر کی جدوجہدِ آزادی نہیں دبے گی۔ مودی کو دہائیوں بعد اقتدار میں آنے والے سب سے تقسیم پسند اور سب سے طاقتور ترین بھارتی رہنما کے طور پر بیان کیا جاچکا ہے۔ ان کی جارحیت پسندی بھارت کے سیکولرازم کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ مودی کی جانب سے بھارت کو ایک ہندو راشٹریہ میں بدلنے کی کوشش نے اس ملک میں بہت زیادہ سیاسی تقسیم پیدا کردی ہے۔

سیکولرازم کے جس نظریے نے مختلف نسلوں اور مذاہب کو متحد کیے رکھا تھا، وہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کی منسوخی کے اقدام سے کمزور ہوا ہے۔

بھارتی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں پاکستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ، ہمیں حقِ خودارادیت کے لیے کشمیر کی جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ سیاسی اور اخلاقی مدد فراہم کرنی ہوگی اور ہر بین الاقوامی فورم پر بھارت کے سفاک عزائم کا انکشاف کرنا ہوگا۔ تاہم ہمیں 1990ء کی دہائی کی اس تباہ کن پالیسی اختیار کرنے سے خود کو باز رکھنا ہوگا جس نے کشمیر کی مقامی تحریک کو فائدہ پہنچانے کے بجائے الٹا نقصان پہنچایا تھا۔

کشمیری عوام نے یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت طاقت کا چاہے جتنا بھی استعمال کرلے مگر وہ ان کے عزم کو شکست نہیں دے سکتا۔ مودی کے حالیہ اقدام نے ان کے عزم کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ بھارتی اقدام نے یہ ثابت کیا ہے کہ کشمیر دنیا کا خطرناک ترین مقام ہے اور ایٹمی جنگ کا میدان بھی بن سکتا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری اس معاملے کی سنجیدگی کو محسوس کرے۔


یہ مضمون 7 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں