ان راستوں پر چلتے ہوئے پنٹو نے اپنا سفر کیا تھا
تھر کے مغربی اختتام پر ہم جنوبی سندھ کے مشہور گھاٹ ’ونگو‘ پر کھڑے ہیں۔ یہاں سے ننگرپارکر موجودہ راستوں سے 200 کلومیٹر دُور ہے۔ موجودہ وقت میں تو ونگو کے قدیم گھاٹ پر بس خاک ہی اُڑتی ہے مگر جب سیدی علی یہاں 1554ء میں آئے تھے تو دریائے سندھ کا بہاؤ جس کو ’مہران‘ اور ’پُران‘ کے ناموں سے جانا جاتا تھا وہ اپنے اوج پر تھا۔ کہتے ہیں کہ دریا کا پاٹ اتنا بڑا تھا کہ دوسرا کنارہ نظر نہیں آتا تھا۔ اب تو وہاں ویرانی ہے اور کوئی کنارہ نظر نہیں آتا۔
ہمارے مہمان نے یہاں پرانے اونٹ بیچے اور نئے توانا اونٹ خریدے۔ دریا پار کرکے پھر اپنا سفر ٹھٹہ کی طرف جاری رکھتے ہوئے وہ اس وقت کے بڑے تجارتی مرکز ’جون‘ اور ’فتح باغ‘ آ پہنچے۔ (اگر آپ حیدرآباد سے بدین کی طرف جارہے ہیں تو ماتلی شہر کے جنوب میں جو انصاری شگر مل ہے اس کے مغرب میں آپ کو جون اور فتح باغ کے آثار دیکھنے کو مل جائیں گے)۔
یہ وہ زمانہ تھا جب، شاہ بیگ ارغون کا بیٹا شاہ حسن بیگ بیماری اور حکیموں کے کہنے پر کشتی پر اپنے شب و روز گزار رہے تھے۔ کشتی کبھی ٹھٹہ اور کبھی سیہون تک جا نکلتی۔ مرزا حسن، عیسیٰ ترخان اور بکھر کے سلطان محمود کی جو تکون بنی ہوئی تھی اس میں ایک زمانے سے سیاسی گرمی سردی چل رہی تھی۔ جن دنوں میں سیدی علی یہاں ٹھٹہ پہنچے تھے تب ان کی چپقلش جنگ کی صورت اختیار کرچکی تھی۔
ہمارے مہمان سیدی علی مرزا نے شاہ حسن سے ملاقات بھی کی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’میری آمد پر انہوں نے میرا پرتپاک استقبال کیا، چونکہ ربیع الثانی کے مہینے کا آغاز تھا اس لیے انہوں نے مجھے شاندار کپڑے دیے اور ہمیں خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی فوج کا خطاب دیا اور ساتھ میں لاڑی بندر کی گورنری دینے کی پیشکش بھی کی۔ تاہم میں نے انکار کیا۔ میں نے جب اپنا سفر جاری رکھنے کی اجازت چاہی تو انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ جب تک جنگ کی صورتحال موجود ہے تب تک اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایک ماہ کی جنگ و جدل کے بعد رنجشیں ختم ہوئیں مگر جب مرزا شاہ حسن نے کشتی میں وفات پائی تو ان کی بیوی ماہم پر زہر دینے کا الزام لگا۔ مجھے شاہ حسن کا آدمی سمجھا گیا مگر میں نے بڑی کوششوں کے بعد مرزا عیسیٰ کے بیٹے مرزا صالح کو تحفے وغیرہ دے کر راضی کیا اور مرزا عیسیٰ نے بھی ہماری مدد کی اور ہمیں 7 جہاز دیے جن پر سوار ہوکر ہم بکھر کے لیے روانہ ہوئے۔‘
سیدی نے ٹھٹہ سے بکھر تک کے سفر میں نظر آنے والے مناظر کا کہیں کہیں لیکن بہت ہی مختصر تذکرہ کیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر منظر نگاری کے معاملے میں انہوں نے اس قدر اختصار سے کام کیوں لیا ہے؟
دریائے سندھ سے متعلق فقط اتنا لکھتے ہیں کہ ’دریا میں سفر کرتے مجھے بڑی مچھلیاں دکھیں اور گھڑیال بہت نظر آئے اور کناروں پر شیروں کا شکار بھی کیا جاتا تھا۔‘
سیدی علی بکھر میں سلطان محمود کے پاس ایک ماہ سے زائد عرصے تک رہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے رات خواب میں اپنی والدہ کو دیکھا جو مجھے بُلا رہی تھیں۔ اگلی صبح جب میں نے سلطان محمود کو خواب سنایا تو انہوں نے مجھے دہلی جانے کی اجازت دی اور ساتھ میں ایک خوبصورت گھوڑا، 50 کے قریب اونٹ، ایک چھوٹا سا خیمہ، سفری اخراجات کے لیے رقم، ہمایوں بادشاہ کو میری سفارش کا خط اور اونٹوں کے قافلے کے لیے 250 آدمی دیے۔ ہمارا قافلہ اُچ اور ندی پار کرکے، رمضان کی 15 تاریخ کو ملتان پہنچ گیا۔‘
ملتان کے بعد وہ لاہور پہنچے۔ وہاں بھی سیاسی حالات کی دیگ میں بھاپ بہت اُٹھتی تھی۔ وہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ ’جیسے ہی ہمایوں نے ہماری آمد کی خبر سُنی تو انہوں نے خان خاناں اور دوسرے اعلیٰ افسران، 400 ہاتھیوں اور کچھ ہزار آدمیوں کو ہماری طرف روانہ کیا۔ رات کو ہمارے لیے شاندار ضیافت کا انتظام شاہی مہمان خانے میں کیا گیا تھا۔ میں نے شہنشاہ کو ایک چھوٹا سا تحفہ اور ان کے فتحِ ہند پر 2 غزلوں کو پیش کیا۔ اس موقعے پر میں نے سفر جاری رکھنے کی درخواست دی مگر وہ منظور نہ ہوئی اور حکم دیا گیا کہ ’بارشوں کا موسم قریب ہے اس لیے سڑکیں چلنے کے قابل نہیں ہونگی، لہٰذا جب تک موسم بہتر نہیں ہوجاتا تب تک آپ یہاں رکیں۔‘
ہمایوں سے اکثر ان کے ادبی بحث و مباحثے ہوتے رہتے۔ اتفاق یہ بھی ہوا کہ جس دن ہمایوں کی موت زینے سے پیر پھسلنے سے ہوئی تھی اس دن سیدی علی محل میں ہی تھے اور ہمایوں سے اپنے ملک جانے کے لیے اجازت بھی لے چکے تھے۔
فروری 1556ء میں سیدی علی کابل روانہ ہوئے۔ پھر وہاں سے وہ سمرقند اور بخارا سے ہوتے ہوئے قسطنطنیہ پہنچے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ سیدی علی نے اپنے سلطان سلیمان کو 18 ملکوں کے بادشاہوں کے وہ خطوط پیش کیے جو سلطان کو تحریر کیے گئے تھے۔ سلطان ان سے بہت خوش ہوئے اور ایک اعلیٰ عہدے پر فائز کرکے ان کے لیے ایک بڑی تنخواہ مقرر کردی۔ ساتھ ہی ساتھ گزشتہ 4 سالوں کی تنخواہ بھی سیدی کو ادا کی گئی۔ جنوری 1563ء میں سیدی علی رئیس نے قسطنطنیہ میں اپنی آخری سانسیں لیں۔
مزید پڑھیے: کراچی، فرئیر، سندھی زبان اور برصغیر کی پہلی ڈاک ٹکٹ
کیا اس سفر میں ہم ’مینڈیس پنٹو‘ کو بالکل بھول گئے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ پنٹو 1558ء میں پرتگال لوٹے۔ انہوں نے ایک خط ’سوسائٹی آف جیزز‘ کو لکھا تھا، جو 1555ء میں شائع ہوا تھا، جس کی وجہ سے انہیں زبردست شہرت حاصل ہوئی۔ 1562ء سے 1566ء تک وہ اس انعام کے سلسلہ میں کورٹوں کے چکر کاٹتے رہے۔ جس کے بعد انہیں کچھ رقم ملی اور سیدی علی کی وفات کے تقریباً 20 برس بعد 8 جولائی کو پنٹو نے بھی یہ جہان چھوڑا۔
سیدی علی اور مینڈیس پنٹو، دونوں امیرالبحر تھے اور دونوں لکھاری تھے۔ مجھے نہیں پتا کہ پنٹو شاعر تھے یا نہیں، مگر سیدی علی اپنے زمانے کے بڑے زبردست شاعر گزرے ہیں۔ اگر آپ ان کی کتاب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ جیسے یہ شاعر نہ ہوتے تو انہیں اپنے ملک لوٹنے کی شاید کبھی اجازت بھی نہ ملتی۔
جہاں جہاں سیدی علی کو مشکل پیش آئی وہاں شاعری نے وہ مشکل آسان کی۔ وہ یقیناً ایک اچھے اور اصول پرست انسان تھے۔ بس آخر تک مجھے علی رئیس سے یہ شکایت رہی کہ دورانِ تحریر وہ منظرناموں کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لائے مگر پھر بھی ہم ان کے شکر گزار ہیں کہ وہ قدیم راستوں، لوگوں اور بادشاہوں کی کئی باتیں ہمیں بتا گئے ہیں۔ اگر ایک تحقیقی نظر سے دیکھیں تو ان تحریروں میں پانے کے لیے بہت کچھ ہے!
حوالہ جات:
۔ ’سلطنت عثمانیہ‘۔ ڈاکٹر محمد عزیز۔جمہوری پبلیکیشنز لاہور
۔The Travels and Adventures of the Turkish Admiral. By: A.Vambery. London 1899
۔ The Voyages and Adventures of Ferdinand Mandez Pinto The Portuguese. By: Henary Kogan, Landon 1663
۔ ’تاریخ گجرات‘۔ شاہ ابوتراب ولی۔ مترجم: شبیہ احمد۔ ہندوستانی پبلشنگ ہاؤس، الہ آباد۔
۔ ’نگری نگری پھرا مسافر‘ ۔ابوبکرشیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
۔ ’عرب و ہند کے تعلقات‘۔ مولانا سید سلیمان ندوی۔ کریم سنز پبلیشرز، کراچی