عین اس وقت آرمی چیف اور تاجر وفد کے درمیان ملاقات ہوئی۔ چیف کا پیغام سادہ سا تھا اور وہ یہ کہ ایڈجسٹمنٹ کا عمل ایک طویل عرصے تک جاری رہے گا لہٰذا صبر سے کام لیں۔
تاجروں نے چیف کے سامنے اپنی کچھ شکایات رکھیں۔ جیسے ٹیکس ری فنڈز کے طریقہ کار یا پھر کس طرح واجب الادا ٹیکس ری فنڈز کے بدلے میں جاری کردہ بانڈز کی ثانوی مارکیٹ میں زیادہ قدر نہیں رکھتے۔
چند تاجر گزشتہ برس پنجاب مل مالکان سے وعدہ شدہ گیس کی قیمتوں میں سبسڈی بحال کروانا چاہتے تھے۔ دیگر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ زمین کے حصول سے متعلق طریقہ کار کو تعمیراتی صنعت کے لیے آسان بنایا جائے۔ تمام تاجروں نے یہ خواہش بھی سامنے رکھی کہ نیب سے ان کی جان چھڑوائی جائے۔
بدلے میں ان سے کہا گیا کہ ایڈجسٹمنٹ کے عمل کو متاثر کیے بغیر جتنی ہوسکی اتنی سہولت دینے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم انہیں یہ بھی کہا گیا کہ برائے مہربانی اپنی آواز دھیمی رکھیں۔ اسی وجہ سے آپ ان تاجروں کو ٹی وی پر نہیں دیکھ پا رہے ہیں اور جب وہ اسکرین پر آ بھی جائیں تو ان کا دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ عمومی طور پر نیب سے متعلق پیغام یکسر بدل چکا ہے کہ اس وقت جاری ایڈجسٹمنٹ عمل میں یہی وہ معاملہ ہے جس پر سارے تاجر متفق پائے جاتے ہیں۔
تاجروں سے کہا گیا ہے کہ جب تک مہنگائی میں کمی نہیں آجاتی تب تک شرح سود بلند ہی رہے گی۔ ٹیکس وصولی کے لیے کی جانے والی کوششیں بھرپور انداز میں جاری رہیں گی۔ زرِمبادلہ کی شرح کو اپنی حقیقی قدر تلاش کرنا ہی ہوگی۔
ملاقات کی تھوڑی ہی دیر بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ تاجر ’حکومتی اصلاحات پر عمل درآمد کروانے میں تعاون کریں گے، اس کے علاوہ ٹیکس ادائیگی کے ذریعے اور سماجی و اقتصادی طور پر ذمہ دارانہ انداز میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں گے۔‘
اور یہیں یہ باب اختتام کو پہنچا۔
یہ مضمون 10 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔