لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت گھر بھیجنے کی تیاری پکڑلی ہے۔ دوسری طرف حکومتی حلقوں سے زیادہ بے چینی اپوزیشن حلقوں میں موجود ہے کہ (پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنی حکومت کے لیے کافی ہے، کسی اور کو یہ زحمت دینے کی اب ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی)۔

مسلم لیگ (ن) والے تو یہ فیصلہ ہی نہیں کر پارہے کہ آخر کرنا کیا ہے؟ اور کبھی آپس میں، کبھی نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور خود مولانا سے مشاورت پر مشاورت کیے جا رہے ہیں۔

پیپلزپارٹی وہی کام کر رہی ہے جو 2018ء کے انتخابات کے بعد سے کرتی چلی آرہی ہے اور اب تو اس میں مہارت بھی حاصل کرچکی ہے، یعنی کبھی ہاں کبھی ناں۔ یہ جماعت آخری لمحے تک اسی کبھی ہاں کبھی ناں کا شکار رہتی ہے، پھر چاہے وہ پارلیمنٹ میں وزیرِاعظم کے انتخاب کا موقع ہو یا پھر آزادی مارچ۔

تاہم مولانا فضل الرحمٰن اپنے فیصلے پر ثابت قدم نظر آتے ہیں۔ ان کے لیے اکتوبر کا مطلب ہے اکتوبر اور زیادہ وضاحت سے کہیں تو ٹھیک 27 اکتوبر کو وہ دارالحکومت کا رخ کریں گے۔ وہ اور ان کے حامی پورے ملک سے اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور اس کے بعد ممکنہ طور پر پلان یہ دکھائی دیتا ہے کہ یہ لوگ تب تک وہیں پڑاؤ ڈالے رکھیں گے جب تک حکومت گھر نہیں چلی جاتی۔

یہ سب کیسے ہوگا اس حوالے سے کچھ بھی واضح طور پر نہیں کہا جاسکتا، مگر ہمارے حصے کی دنیا کے سیاستدان واضح حکمت عملی مرتب کرنے کے بارے میں نہیں جانے جاتے کیونکہ وہ منطق سے زیادہ خفیہ ہاتھوں کے سہارے پر انحصار کیے رکھتے ہیں۔

لہٰذا جب حافظ حسین احمد سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت کو کیا لگتا ہے حکومت کس طرح گھر جائے گی؟ تو ان کا یہ جواب سن کر ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی کہ وہ پارٹی کی حکمت عملی کا کھلے عام اظہار نہیں کریں گے، دراصل جب سیاستدانوں کے پاس کسی سوال کا جواب نہ ہو تو وہ یہی جواب دیتے ہیں۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی اخلاقی طور پر راست باز جماعت ہے جس کا رویہ سب سے زیادہ ناقابلِ فہم بنا ہوا ہے۔ آصف زرداری حکومت کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے رہے پھر کچھ وقت کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایسے ہی بیانات دیے تاہم چند ماہ بعد جب مولانا اپنے منصوبوں کو آخری شکل دے رہے تھے عین اس موقعے پر پارٹی نے اپنے قدم پیچھے کرلیے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان کی جماعت کسی ایسے شخص کی حمایت نہیں کرسکتی جو مذہبی کارڈ استعمال کر رہا ہو اور نہ ہی ان کی جماعت دھرنوں میں یقین رکھتی ہے۔ بس بات ختم۔

تاہم، چند ہفتوں بعد پیپلزپارٹی ایک بار پھر مارچ میں شرکت سے متعلق اپنے فیصلے کو لے کر مسلم لیگ (ن) اور مولانا کے ساتھ مشاورتی عمل میں شامل ہونے پر راضی ہوگئی ہے۔ مولانا نے تو اپنے مقاصد یا طریقہ کار میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی، ایسے میں یہ سمجھنے میں بڑی دقت ہو رہی ہے کہ آخر وہ کون سا معاملہ ہے جس پر پیپلزپارٹی نظرثانی کر رہی ہے۔

جب پارٹی والوں سے یہ سوال پوچھا جائے تو ان کی جانب سے غیر تسلی بخش جوابات ہی ملیں گے۔ یہی نہیں بلکہ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد سے ان کی قیادت کی جانب سے لیے گئے متعدد یوٹرن میں سے کسی ایک یوٹرن کے بارے میں بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل پایا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اس انجان سی صورتحال کا اندازہ ایک مشہور شاعر کے ان لفظوں سے کچھ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ، پیپلزپارٹی کے مرد و خواتین کا کام صرف حکم ماننا ہے حکم کی منطق پوچھنا نہیں۔ (مزید شاعری نہ لکھی جائے تو ہی بہتر ہے)

مسلم لیگ (ن) مولانا کے منصوبوں کے بارے میں کوئی بھی واضح بیان دینے سے گریزاں رہی ہے، اور بھلا بیان دے بھی کیسے؟ کیونکہ انتخابات سے قبل وہ جس گرداب میں پھنسی ہوئی تھی اس میں آج بھی پھنسی ہوئی ہے۔ آیا یہ پارٹی عقابوں کی ہے یا فاختاؤں کی؟ گُڈ کاپ یا بیڈ کاپ کی، نواز شریف کے بیانیے پر چل رہی ہے یا پھر شہباز شریف کے بیانیے پر؟ یہ جماعت بابل کا بُرج (Tower of Babel) بنی ہوئی اور کوئی شخص حتیٰ کہ خود پارٹی والے بھی اس کا واضح مقصد بتانے سے قاصر ہے۔ یہ جماعت اب تک اسی پرانی کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے البتہ اب جبکہ ان کے چند اہم پارٹی رہنما جیل میں بند ہیں اس لیے اس کا کچھ جواز بھی حاصل ہوگیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) والے ملاقات پر ملاقات کیے جا رہے ہیں جو اب تک بے نتیجہ ہی رہی ہیں، جبکہ پیپلزپارٹی اس منتشر ’اتفاقِ رائے قائم کرنے‘ میں حصہ دار بنی ہوئی ہے۔

اس پورے کھیل کی شروعات ہوتی ہے موسمِ گرما میں ہونے والی بین الجماعتی کانفرنس سے، جس میں فیصلہ سازی کے لیے رہبر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ بعدازاں پیپلزپارٹی نے یکطرفہ طور پر ’پیچھے ہٹنے‘ کا اعلان کیا اور پھر نظرِثانی کا فیصلہ کرلیا۔ اب دونوں جماعتیں مزید ایک اور بین الجماعتی کانفرنس کا انعقاد چاہتی ہیں۔ یہ واضح نہیں ہو رہا ہے کہ آیا اس کانفرنس کے ذریعے یہ دونوں جماعتیں کسی ایک فیصلے پر پہنچنے کے لیے مدد چاہتی ہیں یا پھر مولانا کا ذہن تبدیل کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔

تاہم کھسر پھسر کی آوازوں اور 2 بیانیوں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے حلقے چند اہم خدشات ظاہر کرتے ہیں، جو مارچ میں شرکت کے باعث پیدا ہوسکتے ہیں۔

یہ جماعت تو سزاؤں، سوالات اور الزامات کی صورت پہلے سے ہی ریاست کے قہر کا سامنا کر رہی ہے ایسے میں کیا وہ دھرنے میں شرکت کا رسک مول لے کر اپنے لیے مزید مصیبت کو دعوت دینا چاہے گی؟ اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ تمام تر ہراسگی صرف ایف آئی اے یا نیب جیسے وفاقی اداروں کے ہاتھوں ہی نہیں ہوئی بلکہ ایک بڑی حد تک انتخابی حلقے کی سطح پر بھی ہراساں کیا گیا جس کی خبریں شاذ و نادر ہی بنا کرتی ہیں۔ یہی وہ ہراسگی کے شکار ڈرائے اور دھمکائے گئے انتخابی حلقوں کے سیاستدان ہیں جن سے جلسوں اور دھرنوں کے لیے لوگوں کو اکھٹا کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔

دیگر لفظوں میں کہیں تو پارٹی میں کنفیوژن یا پریشانی کا تعلق صرف مارچ کے لیے شہباز شریف کی ہچکچاہٹ اور نواز شریف کے جوش تک ہی محدود نہیں ہے۔

تاہم دونوں اپوزیشن جماعتوں میں نظر آنے والی پریشانی اور بے چینی کی بہتر انداز میں عکاسی اس جملے سے کی جاسکتی ہے جو ایک سینئر اپوزیشن سیاستدان نے کہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہر کوئی اسی سوچ میں ڈوبا نظر آتا ہے کہ مولانا اپنے مارچ کے انعقاد کو لے کر اس قدر پُراعتماد اور بضد کیوں ہیں؟ کہنے کا مطلب یہ کہ آیا انہیں کیا کسی قسم کی گارنٹی یا یقین دہانی کروائی گئی ہے جس سے دیگر بے خبر ہیں؟‘

پاکستانی سیاست نامی اس بھول بھلیاں میں جہاں ہر ایک مسلسل خلائی مخلوق سے رابطے، ان سے اپنا سیاسی تجزیہ اور پیش گوئیاں حاصل کررہا ہوتا ہے، وہاں وہ سیاستدان جو اقتدار گرانے پر بظاہر پُرعزم دکھائی دیتے ہیں انہیں ’دیگر‘ کا سمجھایا بجھایا تصور کیا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ مولانا کا ان کی طرف جھکاؤ دیگر کے مقابلے میں ہمیشہ سے زیادہ رہا ہے۔

ظاہر ہے کہ 2014ء میں عمران خان کی طرف سے کی گئی بے وقوفی کا فیصلہ پارٹی اتفاق رائے کا صلہ نہیں تھا بلکہ یہ فیصلہ ان کا تھا جو عمران خان کے کانوں میں کھسر پھسر کر رہے تھے۔ ان کی پارٹی میں تو اس فیصلے پر اتنے زیادہ اختلافات تھے کہ خیبرپختونخوا کے پارٹی عہدیداروں نے صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ دینے سے بھی انکار کردیا تھا، جبکہ وہ افراد جو بڑی مشکل سے قومی اسمبلی تک پہنچے تھے ان کے پاس سوائے استعفی دینے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا، جن میں سے اچھی خاصی تعداد ایسے اراکین کی بھی تھی جو (آف دی ریکارڈ) ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے اور افسوس کا اظہار کیا۔

اس وقت عمران خان سے کیا وعدہ کیا گیا تھا، اس بارے میں کچھ خبر نہ ہوسکی۔ مگر جو کچھ ہوا اس کا وعدہ تو بالکل بھی نہیں کیا گیا تھا اور بالآخر عمران خان نئے انتخابات کا مطالبہ منوائے بغیر کنٹینر سے اتر ہی آئے، جس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ حکومت اور وردی والوں کے درمیان تناؤ کے باوجود بھی وردی والے حکومت کو گھر بھیجنے کے موڈ میں نہیں تھے۔

لہٰذا سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ اگر کوئی مولانا کے کانوں میں سرگوشی کرکے وعدے کر رہا ہے تو مولانا ان پر بھروسہ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس وقت سرگوشیوں میں حکومت گھر بھیجنے کی طرف اتنا بھی جھکاؤ نظر نہیں آسکتا جتنا کہ 2014ء کی سرگوشیوں میں نظر آسکتا تھا؟ شاید پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اسی سوال کے جواب کی تلاش میں ملاقاتوں پر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔


یہ مضمون 8 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں