انسانی ہمدردی کے تحت ترکی نے 36 لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا۔ اب بھی ترکی کی پالیسی میں شامی مہاجرین کی مدد شامل ہے لیکن اس کے ساتھ ترکی چاہتا ہے کہ شامی مہاجرین کی کوئی نئی لہر پیدا نہ ہو، مزید ہجرت روکی جائے اور پہلے سے بے گھر شامی شہریوں کے لیے شام کی سرحدوں کے اندر ایک سیف زون بنایا جائے۔
ترکی کی پالیسی میں تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ وہ خیال کرتا ہے کہ مہاجرین کی مدد اور نئی ہجرت کو روکنے کے چکر میں کرد گروپ اور داعش اس کی سرحد کے پاس پہنچ گئے ہیں، لہٰذا اس مسئلے کا حل فوجی طاقت کے سوا کچھ نہیں رہا۔
ترکی بشارالاسد کو ہر حال میں حکومت سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ شام میں بغاوت شروع ہوئی تو ترکی نے بشارالاسد کو مشورہ دیا کہ وہ عوام کے مطالبات پر مذاکرات کرے اور اصلاحات لائے۔
ابتدائی 6 ماہ ترکی نے شام کے مسئلے میں براہِ راست دخل اندازی سے گریز کیا۔ بشارالاسد نے بغاوت کچلنے کے لیے ایران سے مدد لی اور بغاوت کچل دینے کے عزم کا اظہار کیا جس پر خانہ جنگی شروع ہوگئی اور ترکی میں مہاجرین کا سیلاب آگیا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب ترکی نے بشارالاسد حکومت کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا اور باغیوں کی مدد شروع کردی۔ ایران اور روس کے علاوہ امریکا اور دیگر طاقتوں کی مداخلت کے بعد ترکی مقاصد کے حصول میں ناکام ہوتا چلا گیا۔ اس پر ترکی نے بشارالاسد کو ہٹانے کی ضد چھوڑ دی اور بشار کے بغیر مسئلے کے حل کے مؤقف سے پیچھے ہٹ گیا۔
2016ء کے بعد ترکی نے بشار حکومت کے خاتمے کو ترجیح بنانے کے بجائے شام کی علاقائی سالمیت اور امن کی بحالی پر توجہ دی جس کی وجہ بشارالاسد کو ایران اور روس کی حمایت کا حاصل ہونا تھا۔ ایک اور وجہ ترکی کے زیرِ سرپرستی کام کرنے والے باغی گروپوں میں نااتفاقی بنی۔
بشارالاسد کی برطرفی ترکی کی ترجیح نہ ہونے کے باوجود انقرہ باغی گروپوں کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ وہ شام کے مستقبل کے فیصلے میں اپنا کردار رکھنا چاہتا ہے اور کردوں کو مستقبل کے فیصلوں میں مضبوط نہیں ہونے دینا چاہتا۔ اسی لیے ترکی نے آستانہ مذاکرات میں باغی گروپوں کی سفارتی مدد کی اور شام میں باغی گروپ فری سیرین آرمی کی زمینی مدد جاری رکھی۔ ترکی شام کے مستقبل کے لیے آستانہ مذاکرات کو اہمیت دیتا ہے کیونکہ جنیوا میں مذاکرات کا جو عمل شروع کیا گیا اس کے لیے کرد ملیشیا کو بھی مدعو کیا گیا تھا جس کے سبب ترکی اور اس کے اتحادی شامی باغیوں نے شرکت نہیں کی۔
ترکی کا ایک اور مقصد شام کو ایران کی سیٹلائٹ ریاست بننے سے روکنا ہے جس کے لیے ایران اور ترکی کے درمیان پراکسی وار جاری ہے ۔ ترکی ایران کو روکنے کے لیے چند خلیجی ملکوں کا بھی اتحادی ہے۔ ترکی شام کے علاوہ عراق، یمن اور لبنان میں ایران کو اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے طور پر دیکھتا ہے۔ ترکی سیکولر ریاست کی حیثیت سے فرقہ وارانہ علاقائی پالیسیوں کا سخت مخالف ہے۔
ترکی کی حالیہ فوجی مہم صدر اردوان اور صدر ٹرمپ کی ایک ٹیلیفونک گفتگو کے بعد شروع ہوئی۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق صدر اردوان نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی ہونے کے باوجود امریکا ترکی کے سیکیورٹی خدشات کو اہمیت نہیں دے رہا۔ ترکی کے ساتھ شام کی طویل سرحد کردوں کے کنٹرول میں دے دی گئی ہے۔ صدر اردوان کے ساتھ گفتگو کے بعد صدر ٹرمپ نے شمالی شام سے امریکی فوجی دستے نکال کر ترکی کی کارروائی کا راستہ صاف کیا لیکن جب امریکا میں اس فیصلے پر تنقید تنقید ہوئی تو صدر ٹرمپ نے ترکی کو دھمکیاں دینا شروع کردیں کہ اس نے تجاوز کیا تو اس کی معیشت تباہ کردی جائے گی۔
صدر ٹرمپ کی نہ ختم ہونے والی جنگوں سے بیزاری کے علاوہ اس فیصلے کے پیچھے امریکا کی مبہم شام پالیسی کارفرما ہے۔ سابق صدر بارک اوباما نے شام میں براہِ راست مداخلت کے بجائے مقامی گروپوں کی مدد کی۔ صدر ٹرمپ کے دور میں بھی یہ پالیسی برقرار رہی۔
شام میں امریکی پالیسی کے 3 مقاصد بیان کئے گئے۔
پہلا داعش کا خاتمہ، دوسرا ایرانی مداخلت کا خاتمہ اور تیسرا بشار الاسد کو ہٹائے بغیر سیاسی حل تلاش کرنا۔ امریکی صدر نے دسمبر 2018ء میں داعش کی شکست سے متعلق ٹویٹ کیا جبکہ زمینی حقیقت یہ تھی کہ داعش کے خلاف سیرین ڈیموکریٹک فورس اس وقت تک لڑ رہی تھی اور داعش کی پسپائی اس سال یعنی مارچ 2019ء میں ہوئی۔ ایرانی مداخلت اب بھی جاری ہے جبکہ سیاسی حل بھی تلاش نہیں کیا جاسکا اس طرح امریکا اپنے بیان کردہ مقاصد کے حصول سے پہلے ہی شام سے نکلنے کی تیاری کرچکا تھا۔