ترکی کا شام میں آپریشن 'غلط فیصلہ' ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2019
واشنگٹن اس حملے کو قبول نہیں کرتا، ڈونلڈ ٹرمپ — فائل فوٹو/اے پی
واشنگٹن اس حملے کو قبول نہیں کرتا، ڈونلڈ ٹرمپ — فائل فوٹو/اے پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ترکی کا شمالی شام پر حملہ کرنے کا فیصلہ غلط ہے۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کو شام سے واپس بلالیا تھا جس کے بعد ترکی کو امریکا کے سابقہ اتحادی کرد جنگجوؤں پر حملہ کرنے کا موقع ملا تھا۔

فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی ہی جماعت ریپبلکن پارٹی کے سینیئر اراکین سمیت واشنگٹن کے کئی اعلیٰ عہدیداروں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ٹرمپ کے فیصلے کو کرد ملیشیا کے ساتھ دھوکا قرار دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ کرد جنگجوؤں کے ساتھ مل کر امریکی فورسز نے شام سے داعش کے خاتمے کے لیے کارروائیاں کی تھیں۔

مزید پڑھیں: ترکی نے شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن شروع کردیا

کردوں کے خلاف ترکی کی حالیہ کارروائی کے ردعمل میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'واشنگٹن اس حملے کو قبول نہیں کرتا'۔

امریکی صدر نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ترکی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انسانی بحران کی صورتحال پیدا نہیں ہونے دے گا اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہے'۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے داعش کے دوبارہ پروان چڑھنے کا موقع ملے گا۔

ناقدین کو مخاطب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'ترکی نے شہریوں اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا وعدہ کیا ہے اور اس کے علاوہ ترکی، داعش کو کسی بھی شکل میں دوبارہ قائم ہونے سے روکنے کا ذمہ دار ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں امید ہے کہ ترکی اپنے تمام وعدوں پر پورا اترے گا اور ہم صورتحال کا قریب سے جائزہ لیتے رہیں گے'۔

ان کا یہ بیان وائٹ ہاؤس کی جانب سے طویل عرصے سے معاملے پر ملے جلے تاثر ملنے کی کڑی تھی جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ترکی کے کردوں کے خلاف اقدامات کی راہ میں نہیں کھڑے ہوں گے، جبکہ اس ہی دوران اقدامات کرنے پر نیٹو کے اتحادی کو معاشی پابندیوں کی دھمکی بھی دی گئی تھیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر ترکی نے کچھ بھی ایسا کیا جسے میں حد سے تجاوز کرنا سمجھتا ہوں، تو میں ترکی کی معیشت پوری طرح سے تباہ کردوں گا اور میں ایسا پہلے بھی کر چکا ہوں'۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ کم تعداد میں مگر سیاسی طور پر نمایاں فوجیوں کو شام-ترک سرحد سے واپس بلانا ان کا مشرق وسطیٰ کے تنازع میں پھنسے امریکی فوجیوں کے انخلا کے منصوبے کا حصہ ہے۔

قبل ازیں انہوں نے کردوں کو دھوکا دینے کے الزامات مسترد کیے اور کہا تھا کہ 'ہم شام سے نکلنے کے مرحلے میں ہیں تاہم ہم کردوں کو تنہا نہیں چھوڑ رہے جو بہت اہم لوگ ہیں اور بہترین جنگجو ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی کا شام میں زمینی اور فضائی حملے کرنے کا اعلان

یاد رہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فوج کو کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحد میں ‘دہشت گردوں کی راہداری’ کو ختم کرنا ہے۔

شام میں فوجی کارروائی کے تازہ سلسلے پر متعدد ممالک کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس سے خطے کے بحران میں اضافہ ہوگا، تاہم ترکی کا کہنا تھا کہ کارروائی کا مقصد خطے کو محفوظ بنانا ہے تاکہ لاکھوں مہاجرین کو شام واپس بھیجا جاسکے۔

خیال رہے کہ ترکی کا کئی برسوں سے یہ موقف ہے کہ شام میں موجود کرد جنگجو دہشت گرد جو ہمارے ملک میں انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں اور انہیں کسی قسم کا خطرہ بننے سے روکنا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں