’4 ہزار سے بھی کم تعداد میں رہ جانے والی کیلاش قوم مٹنے کو ہے‘
رات کے گہرے اندھیرے میں شاہ محراب کے قدم تیزی سے پہاڑ کی ڈھلانوں پر تھرک رہے تھے۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا مگر شاہ محراب اور اس کے ساتھی اس خطرے کو بھلائے گیت گاتے چلے جارہے تھے جو ان کی تہذیب کو فنا کردینے کے لیے کناروں تک پہنچ چکا تھا۔ وہ خوش تھے، محوِ رقص تھے۔
آج خوشی کی رُت تھی، نئے سال کو خوش آمدید کہنے پورا گاؤں ناچ رہا تھا۔ گیتوں میں دعائیں کررہا تھا، لیکن کیلاشیوں کے دل کے نہاں خانوں میں کچھ الجھنیں ایسی تھیں جو دُور ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ کڑاکے کی سردی جہاں جسموں کو کپکپا رہی تھی، وہیں آنے والی گرمیوں کا سوچ کر دل تھرا رہے تھے۔
شاہ محراب جانتا ہے کہ موسمی تغیرات کے لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے پہلے 10 ممالک میں ہوتا ہے، بالخصوص اس کا وطن، خطہ کیلاش تباہ کن موسمی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ 4 ہزار سے بھی کم تعداد میں رہ جانے والی قوم مٹنے کو ہے۔
سالہا سال برف کی سفید چادر اوڑھے پہاڑ، اب گلوبل وارمنگ اور بے وقت کی مسلسل بارشوں کے باعث برفانی تودے اور کالاش کو گھیرے استوئی، زِنور، باداریت اور اوٹک گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔
2015ء میں جب سیلاب نے اپنا ہدف جب کیلاش کو بنایا اور وادی کو گھیرے میں لیے 3 دیو قامت گلیشیئرز میں موجود تالاب پھٹے تو سیلاب نے بمبورت کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ بہتا پانی کئی ایکڑ زرعی زمین نگل گیا۔ پہاڑوں سے گرتی بڑی بڑی چٹانوں نے گھروں کو روند ڈالا، سیاحوں کے لیے بنائے گئے کیمپنگ ایریا بھی پتھروں سے بھر گئے۔