Dawn News Television

شائع 07 جنوری 2020 08:12am

بلوچستان میں گیس کی قلت پر اراکین سینیٹ کا شدید احتجاج

اسلام آباد: بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے صوبے میں گیس کی شدید قلت پر احتجاجاً پیر کے روز ہوئے سینیٹ کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا جبکہ ایک رکن نے دھمکی دی کہ وہ ایوانِ بالا کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر بندوق اٹھا لیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا اجلاس پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کے سینیٹر محسن عزیز کی سربراہی میں ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی ایل) کو یہ بات یقینی بنانے کی تجویز دی گئی کہ سوئی گیس فیلڈ کے ملحقہ علاقوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ نہ ہو۔

سینیٹر یوسف بدینی، شمیم آفریدی، کوڈا بابر، بہرمند تنگی اور جہانزیب جمالدینی نے نوکنڈی، دالبدین اور ضلع چاغی میں ایل پی جی ایئر مکس پلانٹ کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیر پر احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کیا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایس ایس جی سی حکام بلوچستان کی عوام اور سینیٹ کمیٹی کو گمراہ کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں گیس پریشر میں کمی کے خلاف سینیٹ ارکان کا احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اس قدرتی ذخیرے سے محروم ہے جسے وہ کئی دہائیوں سے پیدا کررہا ہے اور صوبے کے عوام میں احساس محرومی روز بروز بڑھ رہا ہے۔

اس موقع پر سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ میں قسم کھا سکتا ہوں کہ گیس پیدا کرنے والے علاقے سوئی میں خواتین اب بھی لکڑیاں جلاتی ہیں اور جہاں گیس کنیکشنز دیے گئے وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر فوری طور پر سوئی میں گیس لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کی گئی تو میں پارلیمان میں احتجاج کروں گا اور پھر ہم پر محب وطن نہ ہونے کا الزام لگادیا جاتا ہے‘۔

سینیٹر سرفراز بگٹی کا مزید کہنا تھا کہ وہ سینیٹ کی نشست سے استفعیٰ دے دیں گے اور کہا کہ ’ اگر سوئی میں گیس کی فراہمی بحال نہیں ہوئی تو میں آپ (پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور ایس ایس جی سی ایل حکام) کے خلاف بندوق اٹھانے سے گریز نہیں کروں گا‘۔

مزید پڑھیں: ’سوئی گیس سے پاکستان نے ترقی کی، اب بلوچستان کا قرض ادا کریں گے‘

اس موقع پر چیئرمین سینیٹ کمیٹی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے زمین فراہم کیے جانے کے باجود دالبدین میں اب تک ایل پی جی پلانٹ نہیں لگ سکا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مارچ 2019 میں زمین ایس ایس جی ایل کے حوالے کی گئی تھی اور اس کے حکام کو کمیٹی کو گمراہ نہیں کرنا چاہیئے، ان کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ کی اقتصادی تعاون کمیٹی نے گزشتہ برس کے اوائل میں ان پلانٹس کی منظوری دی تھی۔

اجلاس میں وزیر توانائی عمر ایوب نے بتایا کہ اس برس مجموعی طور پر 12 فیصد زائد گیس سسٹم میں داخل کی گئی جبکہ سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ نے گزشتہ برس کے مقابلے اس سال سردیوں میں 50 فیصد زائد گیس فراہم کی۔

انہوں نے شکایت کی کہ مرکزی حکومت کی جانب سے کچھ پائپ لائنز کے راستوں کے حقوق یقینی بنانے کے لیے سندھ حکومت کو 8 خطوط لکھے گئے لیکن صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے تعاون نہیں کررہی۔

یہ بھی پڑھیں: گیس بحران میں اضافے پر حکومت حرکت میں آگئی

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایل پی جی ایئر مکس پلانٹس لگانے کی لاگت بھی علم میں لانا ضروری ہے کیوں کہ ان پلانٹس کی وجہ سے گیس کی لاگت 4 سے 5 ہزار فی ایم ایم بی ٹی یو (ملین برٹش تھرمل یونٹ) بڑھ جائے گی۔

جس پر سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ اس کا مطلب حکومت بلوچستان کو گیس فراہم کرنے سے گریز کررہی ہے، سینیٹر یوسف بدینی نے الزام لگایا کہ ایس ایس جی سی بلوچستان میں ایل پی جی ایئر مکس پلانٹ لگانے میں سنجیدہ نہیں۔

بعدازاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تمام اراکین سے واک آؤٹ کیا تاہم کمیٹی چیئرمین انہیں منا کر دوبارہ اجلاس میں لے آئے۔

Read Comments