Dawn News Television

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2020 04:48pm

پروگرام سے دستبردار ہوں گے نہ معافی مانگیں گے، شاہزیب خانزادہ کا جہانگیر ترین کو جواب

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کی جانب سے ایک ارب روپے کے ہرجانے کے نوٹس کے جواب میں اینکر پرسن شاہزیب خانزادہ نے کہا ہے کہ ہم اس پروگرام سے نہ دستبردار ہوں گے، نہ معافی مانگیں گے۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر نشر کیے گئے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں اینکرپرسن نے جہانگیر ترین سے متعلق اپنے بیانات پر معافی مانگنے سے انکار کیا اور پروگرام کے ایک حصے میں ان کی جانب سے ہتک عزت کے نوٹس میں کیے گئے دعووں کو مسترد کیا۔

شاہزیب خانزادہ نے اپنے جواب میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے ہمیں 21 جنوری، 2020 کے پروگرام سے متعلق ایک قانونی نوٹس بھیجا ہے جس میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور شوگر مافیا سے متعلق تفصیل سے بات کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’جہانگیر ترین کے نوٹس میں ہمیں 14 روز کی مہلت دی گئی ہے اور موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہم اپنے پروگرام کے اس حصے سے دستبردار ہوجائیں اور اپنے ہی پروگرام میں ان سے معافی مانگیں ورنہ وہ ہمارے خلاف ایک ارب روپے کے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کریں گے‘۔

مزید پڑھیں: جہانگیر ترین نے وسیم بادامی اور شاہزیب خانزادہ کو ہتک عزت کے نوٹسز بھیج دیے

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ’یہ قانونی نوٹس ہے ہم اس کا جواب عدالت میں بھی دیں گے لیکن یہ قانونی نوٹس مختلف ٹی وی چینلز پر نشر اور مختلف اخبارات میں شائع کرایا گیا کیونکہ جہانگیر ترین نے یہ نوٹس میڈیا میں نشر کروایا اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ناظرین کو حقائق سے آگاہ سے کریں‘۔

اینکر پرسن نے کہا کہ ’ہم نے جو کچھ کہا وہ محض الزام نہیں ہے بلکہ حقائق ہیں جو دستاویزات، خبروں اور عدالتی فیصلوں پر مشتمل ہیں‘۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پروگرام کے جس حصے کے حوالے سے جہانگیر ترین ہم سے معافی کا مطالبہ کررہے ہیں ہم اس پروگرام سے نہ دستبردار ہوں گے، نہ ہی معافی مانگیں گے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پروگرام حقائق پر مبنی تھا‘۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ’اپنے نوٹس میں جہانگیر ترین نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی بدنیتی یہاں سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہم نے پروگرام نشر کرنے سے پہلے انہیں کوئی دعوت نہیں دی اور ان کا موقف جاننے کی کوشش بھی نہیں کی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ جس بھی شخص یا ادارے کے حوالے سے بات کی ہے ان کا موقف شامل کیا ہے بلکہ اس پروگرام میں ہماری ترجیح ہوتی ہے کہ عوام تک انٹرویو کے ذریعے زیادہ معلومات پہنچائی جائیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: جہانگیر ترین کے سرکاری اجلاسوں میں شرکت کے خلاف درخواست سماعت کیلئے منظور

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ہم متعدد مرتبہ جہانگیر ترین کو اپنے پروگرام میں آنے کی دعوت دے چکے ہیں، سوالنامہ بھجوا چکے ہیں اپنا موقف دینے کی دعوت دے چکے ہیں، ان کے اسسٹنٹ اور عملے کے ارکان کو پیغام بھی بھجوائے جاچکے ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ ہم نے 28 اکتوبر 2019 کو جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو گروپ آف کمپنیز کو شوگر کے معاملات سے متعلق تفصیلی سوالنامہ بھجوایا لیکن کوئی جواب نہیں آیا، پھر 21 جنوری 2020، جس پروگرام پر جہانگیر ترین نے کہا کہ ان کا موقف نہیں لیا گیا اس دن بھی ہم نے جے ڈی ڈبلیو گروپ آف کمپنیز کو سوالنامہ بھجوایا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔

اینکر پرسن نے کہا کہ اسی طرح ذاتی طور پر بھی ہم جہانگیر ترین کا موقف جاننے کی کوشش کرتے رہے اور انہیں پروگرام میں آنے کی دعوت دیتے رہے، جب چینی کی قیمتیں بڑھیں، گندم کا بحران پیدا ہوا تو 20 جنوری 2020 کو جہانگیر ترین کو ان کے اسٹاف کے ذریعے پروگرام میں آنے کی دعوت دی تو جواب دیا گیا کہ وہ مصروف ہیں، آپ کی طرف سے بہت دیر سے دعوت دی گئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی روز ہم نے جہانگیر ترین کے اسٹاف سے درخواست کی کہ اگلے دن 21 جنوری کا وقت دے دیں جس کا موضوع بھی بتایا گیا اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات، چینی کی قیمت میں اضافے اور گندم کے بحران سے متعلق بات کریں گے۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ جہانگیر ترین کے اسٹاف نے جواب دیا کہ فی الحال وہ اسلام آباد میں نہیں ہیں پھر ہم نے انہیں پیشکش کی کہ ہمیں لوکیش بتادیں ہم اپنا کیمرامین اور ڈی ایس این جی بھجوادیں گے لیکن انہوں نے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا۔

اینکرپرسن نے مزید کہا کہ ہم نے 28 جنوری کو دوبارہ جہانگیر ترین کو دعوت دی کہ چینی کی قیمتوں سے متعلق اور قانونی نوٹس جو آپ نے ہمیں بھجوایا ہے اس پروگرام میں شرکت کریں اور اس پر بات کریں تو ہمیں جواب دیا گیا کہ جہانگیر ترین سفر کررہے ہیں اور چینی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشنز سے رابطہ کرلیں۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ہم بار بار رابطہ کرتے رہے اور جس پروگرام پر انہوں نے اعتراض کیا، اس میں بھی شرکت کی دعوت دی وہ نہیں آئے لیکن قانونی نوٹس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے انہیں دعوت ہی نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس جہانگیر ترین سے رابطے کے تمام شواہد موجود ہیں جو عدالت میں پیش کیے جائیں گے، ہم معافی نہیں مانگیں گے بلکہ عدالت میں قانونی جنگ لڑیں گے۔

خیال رہے کہ جہانگیر ترین نے نیوز پروگرامز میں جھوٹے الزامات لگانے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے پر اینکر پرسنز شاہزیب خانزادہ اور وسیم بادامی کو ہتک عزت کے نوٹسز بھیجے تھے۔

دوسری جانب ڈان ڈاٹ کام نے جہانگیر ترین کی جانب سے ہتک عزت نوٹس پر موقف کےلیے وسیم بادامی سے رابطہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ شاہزیب خانزادہ کو بھیجے گئے نوٹس کے مطابق 21 جنوری کو جیو نیوز پر نشر کیے گئے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں پروگرام کے میزبان نے یہ تاثر دیا تھا کہ جہانگیر ترین ’شوگر مافیا‘ کا حصہ ہیں اور ملک بھر میں چینی مصنوعی طور پر مہنگی کرنے کے اجتماعی عمل میں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: 'عمران خان نے یوٹرن لے کر جہانگیر ترین کو کابینہ میں بٹھا لیا'

علاوہ ازیں نوٹس میں کہا گیا تھا کہ شاہزیب خانزادہ نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین چینی کی پیداوار، فروخت، درآمد یا برآمد سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسی کا ’فیصلہ یا انتظام کررہے تھے‘ جس کی وجہ سے چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ چینی کی صنعت میں جہانگیر ترین کا مفاد حکام کی جانب سے شوگر ملز کی ریگولیشن اور چینی کی قیمت میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

دوسری جانب وسیم بادامی کو بھیجے گئے علیحدہ نوٹس میں جہانگیر ترین نے کہا کہ 23 جنوری کو اے آر وائے نیوز پر نشر کیے گئے شو 'الیونتھ آور' میں اینکر نے انہیں ’کرپٹ‘ کہا۔

نوٹس کے مطابق وسیم بادامی نے جہانگیر ترین کے خلاف مبینہ کرپشن یا بدعنوانی کے عمل کا کوئی ثبوت یا شواہد پیش نہیں کیے تھے۔

دونوں نوٹسز میں جہانگیر ترین نے شکایت کی تھی کہ شاہزیب خانزادہ یا وسیم بادامی نے ’انتہائی بدنیتی پر مبنی، بدنام کرنے والے اور نقصان پہنچانے والے بیانات' پر ان کا جواب نہیں مانگا تھا۔

شاہزیب خانزادہ اور وسیم بادامی کے بیانات کو ’بے بنیاد اور من گھڑت‘ قرار دیتے ہوئے جہانگیر ترین کے وکیل نے اینکر پرسنز سے ان کے ہتک آمیز بیانات واپس لینے کا مطالبہ کیا اور اپنے متعلقہ پروگرام میں ‘باقاعدہ عوامی معافی‘ مانگنے اور توہین آمیز بیانات کی تردید شائع کرنے کا مطالبہ کیا۔

نوٹس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر اینکر پرسنز مذکورہ اقدامات نہیں اٹھاتے تو ان کے خلاف ہتک عزت آرڈیننس، 2002 کے تحت ایک ارب روپے ہرجانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔

Read Comments