ایسا لگتا ہے جیسے زندگی میں سب کچھ اینٹی کلائیمکس کی جانب بڑھ رہا ہو۔ ہماری محبتیں، رفاقتیں، انسانیت، احساسات، جذبات، سُکھ چین، سبھی کچھ اینٹی کلائیمکس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ہم کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ کسی کی طویل خاموشی، کسی کا سالوں پر بندھا ہوا صبر کسی کے لیے دائمی سزا کا مؤجب بن سکتا ہے۔
صبح سے برسنے والی ہلکی پھوار اب موسلادھار بارش میں بدل چکی تھی۔ کمرے میں موجود کھڑکی کے اُس پار گلیڈی اوس کے لمبے پتے باؤنڈری وال کے برابر میں تیز ہوا کے جھونکوں سے اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔
موسلادھار بارش کی وجہ سے برائے نام لان تالاب سا نظر آنے لگا تھا۔
ساری زندگی ایک لاحاصل دوڑ میں شامل رہا۔ اس کشمکش کی برزخ سے فرار کا کوئی راستہ ہی نہیں سوجھا تھا۔ بس دوڑتا ہی رہا۔ دولت کے نشے اور اس کے بے وفا پیمانے کے پیچھے ساری سوجھ بوجھ نے بیگانہ کرکے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔
میں یہ کیوں نہ سمجھ سکا کہ اس دہکتے ہوئے زمین کے گولے پر پیسوں سے پیار، فالتو کی شعبدہ بازی اور نظر کے دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ قیمتی تو احساسات پر مبنی وہ رشتے تھے جنہیں میں کھوٹے سکے سمجھ کر پھینک چکا تھا۔ میرے دل پر تو دولت کی مہر لگ چکی تھی۔ کاغذی نوٹوں کو حاصل کرنے کے لیے میں نے کیا کچھ نہیں کیا۔
دھوکہ، فریب، فراڈ، کرپشن اور نہ جانے کیا کچھ! میں ہر جرم بڑی منصوبہ بندی سے کرتا تھا کہ کوئی بھی ثبوت میرے کردار کو مشکوک نہ بنا سکے، تبھی تو آج تک میرے خلاف کوئی بھی ثبوت کسی کے ہاتھ نہیں لگ سکا تھا۔