اور ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ ضروری نہیں کہ بخار اس فہرست میں سب سے اوپر ہو۔
تحقیقی ٹیم کے قائد پیٹر کوہن نے بتایا 'بخار کووڈ 19 کی قابل اعتبار نشانی نہیں'۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بیشتر ہسپتالوں میں نظام تنفس کے مسائل کے ساتھ آنے والے بیشتر افراد کا جسمانی درجہ حرارت معمولی سا ہی بڑھتا ہے، مگر انکا کہنا تھا کہ دیگر علامات کووڈ 19 کی جانب زیادہ اشارہ کرتی ہیں۔
محققین نے کہا کہ کووڈ 19 بخار کے بغیر مختلف اقسام کی کھانسی کے ساتھ بھی شروع ہوسکتا ہے جس کے دوران گلے کی سوجن، ہیضے، پیٹ میں درد، سردرد، جسم میں تکلیف، کمردرد اور تھکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی ایک اہم نشاننی سونگھنے کی حس سے محرومی ہے جو بیماری کے چند دن کے اندر ہی سامنے آسکتی ہے۔
اور جو کووڈ 19 کے سنگین کیسز کو انفلوائنزا یا دیگر نظام تنفس کے امراض سے الگ کرنے والی نشانی ہے وہ سانس لینے میں شدید دشواری ہے۔
محققین کے مطابق 'کووڈ 19 کے سنگین کیسز میں سانس لینے میں دشواری دیگر عام امراض سے بالکل الگ ہوتی ہے'۔
تحقیقی ٹیم کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں سانس لینے میں مسئلہ مختلف ہوتا ہے جو بیماری کے بعد کچھ دنوں میں بتدریج بڑھتا ہے اور روزمرہ کے کاموں جیسے چہل قدمی، سیڑھیاں چڑھنے یا صفائی کے دوران بھی اس کا سامنا ہوتا ہے۔
درحقیقت یہ وہ نشانی ہے جو بتاتی ہے کہ متاثرہ فرد کو طبی ادماد کے لیے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ممکنہ طور پر اس کے خون میں آکسیجن کی کمی بہت زیادہ ہوچکی ہے۔
ڈاکٹر اس کا تجزیہ کسی ٹیسٹ سے کرسکتے ہیں اور ایک بار کووڈ 19 کی تشخیص کے بعد مریض کی حالت کے پیش نظر ہسپتال میں علاج کی تجویز کی جاتی ہے۔
جن مریضوں کو ادویات کی کاک ٹیل دی گئی وہ 4 دن کے اندر خود کو بہتر محسوس کرنے لگے۔
اگر آبادی کے 80 فیصد افراد ماسک کا استعمال کریں تو کورونا وائرس کے کیسز کی شرح میں کمی لانا ممکن ہے۔