Dawn News Television

اپ ڈیٹ 26 دسمبر 2020 12:36am

کووڈ 19 کا شکار ہونے سے پہلے اسے روکنے والی انقلابی دوا کی تیاری میں پیشرفت

برطانیہ میں سائنسدان ایسی نئی دوا کی آزمائش کررہے ہیں جو کورونا وائرس سے متاثر فرد میں اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کو بننے سے روک سکے گی اور ماہرین کو توقع ہے کہ اس سے متعدد زندگیاں بچائی جاسکیں گی۔

یہ اینٹی باڈی تھراپی اس وبائی مرض کے خلاف فوری مدافعت فراہم کرے گی، جبکہ اسے ہسپتالوں میں ایمرجنسی علاج کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے گا۔

ایسے گھروں میں جہاں کوئی فرد کووڈ 19 کا شکار ہو، ان کے ساتھ رہنے والوں کو یہ دوا انجیکٹ کرنے سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ وہ بیمار نہ ہو۔

محققین کے مطابق یہ ایسی جگہوں میں بھی استعمال کرائی جاسکے گی جہاں وائرس کے پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہو۔

لندن کالج یونیورسٹی ہاسپٹل کی وائرلوجسٹ ڈاکٹر کیتھیرن ہولیان جو اس دوا پر تحقیق کرنے والی ٹیم کی قیادت کررہی ہیں، نے بتایا کہ اگر ہم ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ یہ علاج کارآمد ہے اور وائرس کا سامان کرنے والے افراد میں کووڈ 19 کی روک تھام ہوسکتی ہے، تو یہ اس جان لیوا وائرس کے خلاف جنگ میں ایک بہتر ہتھیار ثابت ہوگا۔

اس دوا کو لندن کالج یونیورسٹی ہاسپٹل اورسوئیڈن کی دوا ساز کمپنی آسترازینیکا مل کر تیار کررہے ہیں، جو اس سے قبل آکسفورڈ یونیورسٹی ی کووڈ 19 ویکسین کے لیے بھی کام کرچکی ہے۔

تحقیقی ٹیم کو توقع ہے کہ اینٹی باڈیز کے امتزاج پر مبنی دوا سے لوگوں کو کووڈ 19 سے 6 سے 12 ماہ ت تحفظ مل سکے گا۔

ٹرائل میں شامل افراد و اس دوا کے 2 ڈوز استعمال کرائے جارہے ہیں اور اگر اس کو منظوری ملی، تو اس کا استعمال ایسے افراد کو کرایا جائے گا جو گزشتہ 8 دنوں میں کووڈ 19 سے متاثر کسی فرد سے ملے ہوں۔

محققین کو توقع ہے کہ تحقیق میں شواہد پر نظرثانی کے بعد ریگولیٹری کی منظوری حاصل کی جاسکے گی اور مارچ یا اپریل تک یہ عام دستیاب ہوگی۔

اس کی آزمائش دنیا کے سو مقامات پر کی جائے گی اور سب سے پہلے لندن کالج یونیورسٹٰ کے ہسپتال میں ٹرائل کے لیے لوگوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جن کو یہ دوا یا پلیسبو کا استعمال کرایا جارہا ہے۔

ڈاکٹر کیتھرین نے بتایا کہ اب تک 10 افراد کو یہ دوا انجیکٹ کی گئی ہے، جو گھر، کسی ہسپتال یا تعلیمی ادارے میں وائرس کا سامنا کرچکے ہیں۔

اب ان افراد کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ ان میں سے کتنے میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوتی ہے۔

دوا سے فوری تحفظ ملنے پر یہ وائرس ے پھیلاؤ میں کمی لاسکے گی جس دوران ویکسینز کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔

محققین کا کہنا تھا کہ ا دوا کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے لوگوں کو فوری اینٹی باڈیز فراہم کی جاسکیں گی، اس کو استعمال کرنے والے افراد ویکسین بھی استعمال کرسکیں گے، مگر ویکسین سے مکمل تحفظ فراہم ہونے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔

ایسٹ اینگیلا یونیورسٹی کے میڈیسین پروفیسر پال ہنٹر نے کہا کہ یہ نیا طریقہ علاج کووڈ سے ہلاکتوں کی شرح میں ڈرامائی کمی لاسکے گا۔

انہوں نے کہا 'اس سے کووڈ کی سنگین شدت کے خطرے سے دوچار ہونے والے معمر افراد کی مدد کرکے متعدد زندگیاں بچاسکیں گے'۔

اس دوا میں آسترا زینیکا کے تیار کردہ اینٹی باڈی امتزاج اے زی ڈی 7442 کو بھی شامل کیا گیا ہے، جسم میں بیماری کے خلاف اینٹی باڈیز ننانے کی بجائے اے زی ڈی 7442 میں مونوکلونل اینٹی باڈیز کو استعمال کیا گیا ہے۔

آسترا زینیکا کے امریکا میں رجسٹر ہونے والے ایک ٹرائل کے دستاویزات میں بتایا گیا کہ اے زی ڈی 7442 کووڈ کے ماحول میں جانے والے افراد میں بیماری کی روک تھام میں موثر ہے۔

یہ کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کو ہدف بناتا ہے، جس سے وائرس انسانی خلیات میں داخل نہیں ہوپاتا اور لوگ بیماری کے شکار نہیں ہوتے۔

ایک الگ ٹرائل میں لندن کالج یونیورسٹی ہاسپٹلز کی جانب سے یہ آزمائش بھی کی جارہی ہے کہ اس سے ان لوگوں کو بھی تحفظ مل سکتا ہے جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو، جیسے کینسر کے مریض جو کیموتھراپی کے عمل سے گزر رہے ہوں۔

یہ دونوں ٹرائلز اس وقت تیسرے اور آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔

برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی پبلک ہیلتھ کمیٹی کے شریک چیئرمین ڈاکٹر رچرڈ جرویس نے بتایا کہ ویسے تو اکثریتی آبادی کے لیے کووڈ 19 سے بہترین تحفظ ویکسین سے ممکن ہوگا، مگر یہ ٹرائلز کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ایک نیا طریقہ علاج ہوگا جو فوری طور پر متعارف کرایا جاسکے گا۔

Read Comments