دنیا کو کورونا ویکسینز کی فراہمی کے دوران آئندہ 6 ماہ تک محتاط رہنا ہوگا کیونکہ آبادی کے بڑے حصے کی ویکسینیشن کے لیے وقت درکار ہوگا۔

یہ بات عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن نے ایک انٹرویو کے دوران کہی۔

سی این بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'ہم اختتام کے آغاز کی جانب بڑھ رہے ہیں اور سرنگ کے دہانے پر روشنی کی کرن دیکھ سکتے ہیں، تاہم ابھی بھی ہمیں سرنگ سے گزرنا ہوگا اور آندہ چند ماہ بہت اہم ہوں گے'۔

انہوں نے کہا کہ ویکسینز سے ابتدا میں بہت کم افراد کو تحفظ مل سکے گا جو زیادہ خطرے سے دوچار ہیں، جبکہ تمام آبادی تک اس کے پہنچنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا 'کچھ ممالک میں آبادی کی سطح میں مدفاعتی پیدا ہونے کے مرحلے تک پہنچنے کے لیے 2021 کے آخر تک انتظار کرنا پڑسکتا ہے'۔

انہوں نے بتایا 'اس وقت تک ہمیں احتیاط کرنا ہوگی، ان تمام اقدامات پر عمل کرنا ہوگا جو وائرس کے پھیلاؤ کو محدود کرسکیں '۔

سومیا سوامی ناتھن نے کہا 'حالات میں بہتری کے لیے ہمیں اگلے سال کے اختتام تک رکنا ہوگا، تاکہ بہتر تصویر سامنے آسکے، مگر میرے خیال میں اگلے چند ماہ سخت ثابت ہوسکتے ہیں'۔

برطانیہ میں سامنے آنے والی کورونا کی نئی قسم

انہوں نے حال ہی میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی نئی قسم کے بارے میں بھی بات کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ غیرمعمولی ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں اور اس وجہ سے وہ عام اقسام سے مختلف ہے۔

ان کا کہنا تھا 'زیادہ فکرمندی کی بات یہ ہے کہ 8 میوٹیشنز اسپائیک پروٹین کے حصے میں ہوئیں'۔

اسپائیک پروٹین وائرس کا وہ حصہ ہے جو انسانی خلیات کی سطح پر موجود ریسیپٹرز ایس 2 کو جکر کر وائرس کو خلیات میں داخل ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

سومیا سوامی ناتھن نے کہا 'یہی ممکنہ وجہ ہے کہ اس وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ زیادہ بہتر طریقے سے پھیل رہا ہے، ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ بچوں کو بھی بہتر طریقے سے متاثر کررہا ہے، جن کے جسم میں ان ریسیپٹرز کی تعداد کم ہوتی ہے'۔

تاہم انہوں نے اس نکتے کی جانب توجہ دلائی کہ یہ نئی قسم بیماری کی شدت میں اضافے کا باعث بنتی نظر نہیں آتی۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وائرس کی یہ نئی قسم شاید تیزی سے پھیل سکتی ہے، مگر اس حوالے سے ابھی شواہد ناکافی ہیں، جن سے تعین کیا جاسکے کہ یہ میوٹیشنز بیماری کی شدت، اینٹی باڈی ردعمل یا ویکسین کی افادیت میں تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہے۔

سومیا سوامی ناتھن نے کہا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں جس سے یہ یقین کیا جاسکے کہ ویکسینز اس کے خلف کام نہیں کریں گی، کیونکہ ویکسینز سے وسیع مدافعتی ردعمل پیدا ہوتا ہے جو ممکنہ طور پر اس نئی قسم کے خلاف موثر ثابت ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ویکسینز میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت ہوئی تو ایسا آسانی سے ممکن ہوگا، تاہم اس وقت بیشتر افراد کی طرح ہمارا خیال بھی یہی ہے کہ موجودہ ویکسینز بھی اس کے خلاف کام کریں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں