Dawn News Television

اپ ڈیٹ 23 جنوری 2021 02:14pm

بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صنعتکار پریشان

کراچی: فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) اور ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) نے صنعت کے لیے ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ بجلی کے نرخوں میں اضافے اور گیس روکے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان فیصلوں کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگو نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے بجائے ایڈہاک اور تکلیف دہ فیصلے کیے جارہے ہیں جو مقامی صنعت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور بجلی پیدا کرنے والے آزاد اداروں (آئی پی پیز) کے درمیان مذاکرات کے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آئے جو ایک حیران کن اور سوالیہ نشان ہے۔

مزید پڑھیں: تقسیم کار کمپنیوں کو بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 1.06 روپے اضافے کی اجازت

واضح رہے کہ وزارت توانائی کے ترجمان نے ٹیرف میں اضافے کی ضرورت کو ماضی میں آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے بدعنوانی پر مبنی معاہدوں کو قرار دیا تھا۔

ایف پی سی سی آئی کے صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر یہ مسئلہ تھا تو اس صورتحال کو 'ادائیگی اور حاصل' کے طریقہ کار کو نکالتے ہوئے تمام سول اور فوجداری ریمیڈیز کو نافذ کرنے، او اینڈ ایم لاگت کو کم کرنے، واپسی کی لاگت کو تبدیل کرتے ہوئے ڈالر سے روپے میں کرنے سمیت رپورٹ میں دی گئی دیگر متعلقہ تجاویز پر عمل پیرا ہونے کے ذریعے ٹھیک کرنا چاہیے تھا۔

آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے سلسلے میں انکوائری کا حکم دینے پر موجودہ حکومت کی تعریف کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے سربراہ نے کہا کہ بیس ٹیرف کے لیے کمی اور کم قیمت پر بجلی کی فروخت کی دستیابی کے لیے نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔

یہ بھی پڑھیں: اگلے 9 مہینے ’کے الیکٹرک‘ کراچی والوں کی جیب سے کتنے اضافی پیسے لے گی؟

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا 40 ارب روپے کا سالانہ مالی بوجھ اٹھانے کا اعلان بیس ٹیرف اضافے کے حالیہ اعلان کے مقابلے میں بہت معمولی ہے کیونکہ بجلی کی کھپت پر ایک روپے کا اضافہ صارفین سے 100 ارب روپے سے زیادہ وصول کر رہا ہے۔

علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ اگر مذکورہ اضافہ آئی ایم ایف کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت کے کسی بھی حصے سے جڑا ہوا ہے تو فنڈ کو اس اضافے کو منجمد کرنے کے لیے کافی حد تک قائل کیا جاسکتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے خود ہی سست معاشی ترقی کی پیش گوئی کی ہے، ’اس طرح کے دوغلے پن کو جواز نہیں بنایا جاسکتا’۔

Read Comments