Dawn News Television

اپ ڈیٹ 24 جولائ 2021 07:11pm

خدیجہ صدیقی کیس: مجرم کی 'جلد' رہائی پر سول سوسائٹی نالاں

لاہور: سول سوسائٹی قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی کو 23 مرتبہ چھرے کے وار کر کے زخمی کرنے والے مجرم شاہ حسین کی ’جلد‘ رہائی سے نالاں ہو کر حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ مجرم کو دی گئی معافی کی وضاحت کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے ورکرز اور سول سوسائٹی کے اراکین نے سوشل میڈیا پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتا ہوئے 'سزا میں نرمی' کے نتیجے میں مجرم کی رہائی کی مذمت کی۔

ایک ٹوئٹ میں کہا گیا کہ 'شاہ حسین نے خدیجہ صدیقی پر 23 بار چھرے سے وار کیا اور اپنی 5 سال سزا میں سے ساڑھے 3 سال سزا کاٹنے کے بعد جیل سے رہا ہوگیا، کیا پی ٹی آئی وضاحت کر سکتی ہے کہ اسے کیوں جلدی رہا کیا گیا جبکہ حکومت خدیجہ کی صدیقی کی رضامندی کے بغیر سزا کم بھی نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ اچھے سلوک کی وجہ سے رہائی کا اہل ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: خدیجہ صدیقی کیس میں ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم، مجرم گرفتار

انہوں نے استدلال کیا کہ حکومت شکایت کنندہ یا متاثرہ شخص کی رضامندی کے بغیر مجرم کی سزا میں کمی نہیں کر سکتی۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر مقصود بٹر، جو شاہ حسین کے وکیل ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ ان کے موکل کی رہائی میں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی ناجائز حمایت نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی دوسرے قیدی کی طرح شاہ حسین بھی قانون اور جیلوں کے قواعد کے مطابق چھوٹ کا مستحق تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جیل حکام کی جانب سے گنی گئی سزا کے مطابق شاہ حسین کو اگلے ماہ جیل سے باہر آنا تھا۔

انہوں نے 9 جولائی کو منعقدہ ایک رٹ پٹیشن میں لاہور ہائی کورٹ کے روبرو شاہ حسین کی نمائندگی کی تھی جس کی درخواست حکومت کے خلاف شاہ حسین کو ایک ماہ کی خصوصی معافی میں توسیع نہ کرنے پر دائر کی گئی تھی۔

وکیل نے کہا کہ کوئی بھی مجرم اپنی سزا کے تین سال پورے کرنے کے بعد ایک ماہ کی خصوصی معافی کا حقدار ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ قانون کے مطابق سزا میں معافی، ایک مجرم اور محکمہ داخلہ کے درمیان کا معاملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت مجرم کو معافی کا فائدہ دینے سے پہلے شکایت کنندہ یا متاثرہ شخص سے رضامندی لینے کی پابند نہیں ہے۔

خدیجہ صدیقی کی ایک ساتھی، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھیں، نے ڈان کو بتایا کہ نہ تو جیل کے عہدیداروں نے مجرم کو معافی دینے سے پہلے شکایت کنندہ سے رابطہ کیا اور نہ ہی انہیں ہائی کورٹ کی جانب سے کوئی نوٹس موصول ہوا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ شاہ حسین کو جولائی 2022 میں رہا کیا جانا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’ہائی کورٹ نے خدیجہ کیس کا فيصلہ ديتے وقت شواہد کی غلط تشريح کی‘

ایک عدالتی مجسٹریٹ نے 2017 میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 324 کے تحت شاہ حسین کو اپنی کلاس کی ایک لڑکی خدیجہ صدیقی کو قتل کرنے کی کوشش کرنے پر 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں سیشن عدالت نے اس کی سزا میں دو سال کی کمی کردی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ نے 4 جون 2018 کو شاہ حسین کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا تھا۔

عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ استغاثہ اپنا مقدمہ قائم کرنے میں ناکام رہا اور عدالتیں صرف زخمی گواہ / مقتول کے بیان پر انحصار نہیں کر سکتی ہیں، تاہم سپریم کورٹ نے سزا بحال کردی تھی۔

استغاثہ کے مطابق شاہ حسین نے 3 مئی 2016 کو شملہ ہل کے قریب خدیجہ صدیقی پر حملہ کیا جہاں وہ اپنے خاندانی ڈرائیور کے ساتھ اپنی چھوٹی بہن کو اسکول سے لینے گئی تھیں۔

دونوں بہنیں اپنی کار میں داخل ہونے ہی والی تھیں کہ ہیلمٹ پہنے شاہ حسین نے خدیجہ صدیقی پر چاقو سے حملہ کیا اور ان پر 23 مرتبہ وار کیا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی تھیں۔

Read Comments