’ہائی کورٹ نے خدیجہ کیس کا فيصلہ ديتے وقت شواہد کی غلط تشريح کی‘

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2019
سپریم کورٹ نے ملزم شاہ حسین کے خلاف ٹرائل کورٹ کا فیصلہ بحال کردیا — فائل فوٹو
سپریم کورٹ نے ملزم شاہ حسین کے خلاف ٹرائل کورٹ کا فیصلہ بحال کردیا — فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے خدیجہ صدیقی حملہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے شواہد کو درست نہيں پڑھا جس کی وجہ سے ریکارڈ کی جانچ پڑتال میں واضح غلطی سامنے آئی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ساتھی طالب علم کی جانب سے 23 مرتبہ خنجر کے وار سے زخمی ہونے والی خدیجہ صدیقی سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ ’ہمیں امید ہے کہ ہائی کورٹ اس حوالے سے مستقبل میں بہتر کام کرے گا‘۔

خیال رہے کہ 23 جنوری 2019 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے خدیجہ صدیقی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ملزم شاہ حسین کو گرفتار کرکے عدالت سے جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: خدیجہ صدیقی کیس میں ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم، مجرم گرفتار

واضح رہے کہ شاہ حسین نے 3 مئی 2016 کو لاہور کے علاقے شملہ ہل کے نزدیک قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر خنجر سے حملہ کیا۔

اپنے تفصیلی فیصلے میں چیف جسٹس پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے شواہد میں کئی پہلوؤں کو نظر انداز کرنے اور اس کی غلط تشریح کیے جانے کی نشاندہی کی۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ’اس کیس میں شواہد کی جانچ پڑتال کا کام نامکمل تھا اور اس کی غلط تشریح بھی کی گئی جبکہ ریکارڈ کو پڑھا بھی نہیں گیا، جس کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سنگین غلطی سامنے آئی اور انصاف نہیں ہوسکا اور معاملے پر سپریم کورٹ کو شامل کرنا پڑا‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’بری کرنے کا فیصلہ سنگین نوعیت پر غلط تشریح، شواہد کو نہ پڑھنے کی وجہ سے سامنے آیا اور کیس کا حتمی نتیجہ خطرناک تھا تاہم فیصلے میں مداخلت سے استثنیٰ حاصل نہیں تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: خدیجہ صدیقی کیس: لاہور ہائی کورٹ بار کی قرار داد پر چیف جسٹس برہم

واضح رہے کہ چيف جسٹس آصف سعيد کھوسہ نے خدیجہ صدیقی کیس کا 16 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ خود تحریر کیا۔

فیصلے میں انہوں نے شاہ حسين کو بری کرنے کا ہائیکورٹ کا فيصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹرائل اور اپیل کورٹ نے شواہد اور ریکارڈ کی گہرائی سے جانچ پڑتال کرنے کے بعد شاہ حسین کو مجرم ٹھہرایا تھا‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرائل اور اپیل سننے والے ذیلی عدالتوں کی جانب سے کسی غلطی یا قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے پر ہائی کورٹ کو ان کے ریکارڈ میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔

عدالت کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے شاہ حسين کو 5 سال قيد کا ٹرائل کورٹ کا فيصلہ بحال رکھا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 30 جنوری 2019 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں